Maktaba Wahhabi

247 - 704
معراجِ نبوی انہی دنوں جب اسلام کی دعوت کفارِ قریش کے گوناگوں مظالم کے باجود مکہ مکرمہ ، یثرب (مدینہ منورہ)اور دیگر عرب قبائل کے درمیان تیزی کے ساتھ پھیل رہی تھی، 12نبوی میں معراجِ نبوی کا واقعہ ہوا، اور پانچوں نمازیں فرض کی گئیں، نیز موسمِ حج میں اشخاص وقبائل کے سامنے دعوتِ اسلامیہ کو پیش کرنے کے بہت سارے مثبت نتائج ظاہر ہوئے ۔ اسی لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس عظیم واقعہ سے متعلق یہاں کچھ لکھتا چلوں جو اسی سال وقوع پذیر ہوا، جس سال مقامِ عقبہ پر مدینہ والوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر پہلی بار بیعت کی۔ اس کے بعد ان شاء اللہ مقامِ عقبہ پر دوسری بیعت نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی مدینہ کی طرف ہجرت کے بارے میں لکھوں گا۔ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے واقدی سے ان کے مشائخ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانی سفر سنیچر کی رات 17/ رمضان المبارک 12 نبوی میں ہجرت سے اٹھارہ(18) ماہ پہلے ہوا تھا۔ [1] واقدی نے اپنے اساتذہ ومشائخ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومعراج ہجرت سے ایک سال پہلے 17 ربیع الاول کی رات میں ہوئی اور یہی ابن عباس رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنھا کا قول ہے اور اسی کو قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الشفاء میں راجح قرار دیا ہے۔ [2] کچھ لوگوں نے کہاہے: معراج کا واقعہ رمضان میں ہجرت سے چھ ماہ پہلے ہوا ، ایک قول یہ بھی ہے کہ ہجرت سے آٹھ ماہ پہلے ہوا، اس قول کے مطابق معراج ماہ ِ رجب میں ہوا تھا، اور ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیخ ابوالفضل بن ناصر کے حوالے سے اسی کو ترجیح دی ہے، وہ کہتے ہیں کہ معراج 27/رجب کی رات میں ہوئی۔ اور بخاری، مسلم، احمد، نسائی اورترمذی نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ نے ان سے حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے سامنے معراج کی رات کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا- یا شاید کہا کہ میں حِجر میں لیٹا ہوا تھا- تو ایک آنے والا میرے پاس آیا، اور میرے جسم کو یہاں سے یہاں تک چاک کردیا، میں نے جارود سے پوچھا جو میرے بغل میں تھے کہ اس سے کیا مراد ہے ، تو انہوں نے کہا: آپ کے سینے سے آپ کی ناف تک ، اور میں نے ان سے یہ کہتے ہوئے سنا : آپ کے سینے کی بالائی ہڈی سے آپ کی ناف تک ، پھر اس نے میرا دل نکالا، پھر اس کے لیے سونے کا بنا ایک طشت جو ایمان سے بھرا ہوا تھا، لایا گیا، پھر میرے دل کو دھویاگیا، پھر ایمان سے بھر دیا گیا، پھر اُسے جوں کا توں لوٹا دیا گیا، پھر میرے لیے ایک سفید جانور لایا گیا ، جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ جارود نے ان سے پوچھا: اے ابو حمزہ! کیا وہ براق تھا، تو انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں ، وہ اپنی ٹاپ انسان کی منتہائے نگاہ کے پاس رکھتا تھا، پھر میں اس پر
Flag Counter