Maktaba Wahhabi

246 - 704
ایسا باقی نہ رہا جس نے اسلام کو قبول نہیں کیا ۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اس کے بعد اَسعد بن زُرارہ رضی اللہ عنہ کے گھر لوٹ آئے، اور لوگوں کو پوری تندہی کے ساتھ اسلام کی دعوت دیتے رہے ، یہاں تک کہ انصار کا کوئی گھر ایسا باقی نہیں رہا جس میں مسلمان مرد اور عورتیں نہ پائی جاتی ہوں، سوائے بنی اُمیہ بن زید ، خطمہ، وائل اور واقف کے گھروں کے۔ اور ایسا اس لیے ہوا کہ اُن میں ابو قیس بن سلت نامی ایک شاعر تھا، جس کی بات وہ لوگ سنتے تھے اوراس کی اطاعت کرتے تھے ، یہ شخص ان کے اسلام لانے کی راہ میں حائل ہوگیا اور انہیں اسلام میں داخل ہونے سے روکتا رہا ، غزوۂ خندق کے بعد تک ان کا یہی حال رہا ۔ اور اس شاعر کو اسلام سے عبداللہ بن اُبی بن سلول روکتا رہا، جس کو اسی شاعر نے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتایا تھا کہ یہی وہ آدمی ہے جس کی بشارت یہودیوں نے دی تھی۔ اسی سبب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی صداقت کا علم رکھتے ہوئے ، اس نے قبولِ حق سے اعراض کیا۔ یہ شخص زمانۂ جاہلیت میں تارکِ دنیا ہوگیا تھا، بُت پرستی کو چھوڑ دیا تھا، اور ناپاکی کے بعد غسل کرتا تھا، اس نے نصرانیت کو قبول کرنا چاہا، پھر ایسا نہیں کیا، اس نے اپنے لیے ایک خاص مسجد بنائی تھی اور کہتا تھا: ’’لوگو! ابراہیم علیہ السلام کے الٰہ کی عبادت کرو۔‘‘ ابن اثیر رحمہ اللہ نے اُسد الغابہ میں لکھا ہے : جب اس کی موت کا وقت قریب ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی تو وہ کہتے ہوئے سنا گیا:لا إلہ إلا اللّٰہ۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ موسمِ حج آنے سے پہلے ہی مکہ لوٹ گئے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں تیزی کے ساتھ اسلام پھیلنے کی خوشخبری دی، اور بتایا کہ وہاں اسلام ہر گھر میں داخل ہوچکا ہے ۔ مصعب رضی اللہ عنہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے اسعد بن زُرارہ رضی اللہ عنہ کی مدد سے مدینہ میں مسلمانوں کو جمعہ کی نماز پڑھائی۔یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے سے پہلے کا ہے ، اُس دن اُن نمازیوں کی تعداد چالیس تھی۔ [1] ****
Flag Counter