Maktaba Wahhabi

125 - 704
ابن قیم رحمہ اللہ آگے لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے تمام اطرافِ عالم سے بار بار لوٹ کر آنے کی جگہ بنائی ہے،اورزائرین جب بھی اس کی زیارت کرکے واپس ہوتے ہیں تو دوبارہ اس کی زیارت کا شوق ان کے دلوں میں موجزن ہوتا ہے، اور بار بار اس کی طرف غایتِ اشتیاق کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں۔ اور یہ بھی لکھا ہے: اس کی افضیلت کی دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے امّ القریٰ (تمام ملکوں کی اصل) کہا ہے ، چنانچہ دنیا کی ساری سرزمینیں اس کی تابع اور اس کی شاخ ہیں، اور وہ اُن سب کی اصل۔ [1] اور کہا جاتا ہے کہ مکہ کے شرف وعزت کی دلیل یہ بھی ہے کہ وہاں کے رہنے والوں نے شاہانِ دنیا میں سے کسی کے دین کی پیروی نہیں کی، اور کبھی کسی کو کوئی تاوان نہیں بھرا، اور دورِ جاہلیت میں بھی دنیا کے کسی بادشاہ نے اس پر قبضہ نہیں کیا۔ مکہ کے لوگ ہمیشہ امن میں رہے، نہ کسی نے اس پر قبضہ کیا، اور نہ وہ لوگ کبھی قیدی بنائے گئے،نہ کوئی قریشی عورت کبھی قیدی بنائی گئی۔ کعبہ اللہ کا بیت ِحرام اور مکہ اس کا موطن ہے۔ اہلِ جاہلیت نے ہر دور میں ان دونوں کی تعظیم کی، اور ابتدائے اسلام سے ہی مسلمانوں نے ان دونوں کی تعظیم کی۔ مسلمان قیامت تک بیتِ حرام کی تقدیس کرتے رہیں گے، اور اس کا حج اور خانۂ کعبہ کا طواف کرتے رہیں گے۔ان کے دل ہمیشہ اس سے لگے رہیں گے، اور بار بار اسی کی طرف لوٹ کر آئیں گے، اور اس کی خاطر اہل وعیال، احباب اور ملک ووطن کو چھوڑنا گوارہ کریں گے، اور اس تک پہنچنے کے لیے مالِ کثیر صرف کریں گے، اور اپنی جانوں کی قربانی پیش کریں گے۔ان دونوں کی راہ میں کتنے قتل اورکتنے زخمی ہوئے، اور کتنوں کے مال واسباب چھینے گئے۔ مسلمانوں کے دلوں میں ان دونوں کا عظیم مقام ہے۔ (5) مکہ مکرمہ کا محلِ وقوع اور اس کی اہمیت: ڈاکٹر سعد مرصفی نے پروفیسر ڈاکٹر حسین کمال الدین (ملک سعودیونیورسٹی ریاض میں انجینیرنگ ڈیپارٹمنٹ کے رئیس) کا یہ بیان نقل کیا ہے ، جو مصری اخبار الأہرام عدد 15/1/1397ھ میں شائع ہوا تھا کہ ان کے نزدیک یہ جغرافیائی نظریہ تقریبًا پائے ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ مکہ مکرمہ کرۂ اَرضی کی خشکی کے وسط میں واقع ہے۔ پھر انہوں نے اس ریسرچ کی تفصیل بیان کی ہے، اور اس کے آخر میں لکھا ہے کہ ریسرچ کے وقت اچانک نقشے پر ان کے لیے اس بات کا انکشاف ہوا کہ مکہ دنیا کے بیچ میں واقع ہے۔ نیز مکہ مکرمہ کو بیت اللہ کے شہر کی حیثیت سے اختیار کرنے میں سرِّالٰہی کا علم ہوا جہاں سے آخری آسمانی رسالت کا ظاہر ہونا اللہ کے علم میں مقدر تھا۔ اور جزیرۂ عرب براعظم ایشیاء کا ایک حصہ ہونے کے ساتھ براعظم افریقہ کے قریب تر اور براعظم یورپ کے قریب واقع ہے، اور ان دونوں براعظموں میں سے ہر ایک زمانۂ قدیم سے مختلف تہذیبوں کاگہوارہ اور قدیم ثقافتوں اور فلسفی نظریات کا مرکز رہا ہے، نیز اُس وقت دنیا کی دو عظیم مذہبی طاقتوں ؛ مسیحیت اور مجوسیت، اور مغرب ومشرق کی دو ہم پلہ طاقتوں (فارس
Flag Counter