وروم)کے درمیان واقع تھا۔
چھٹی صدی عیسوی کی ابتدا میں بلادِ عربیہ کی تجارت کی باگ ڈور اہلِ مکہ کے ہاتھوں میں تھی، اسی لیے جزیرۂ عرب کے اِرد گرد واقع ملکوں کے ساتھ اُن کے تعلقات گہرے تھے۔ جہاں یمن اور حبشہ کے ساتھ اُن کے تعلقات استوار تھے، وہیں فارس، اہل حیرہ اور بازنطینوں کے ساتھ بھی ان کے تعلقات مضبوط تھے۔
بنابریں جزیرۂ عرب بنی نوع انسان کی اصلاح کے لیے اسلام کی عالمی دعوت کا مرکز بننے کا زیادہ حق دار تھا، جیساکہ میں نے اس کے بارے میں اپنی تحریر کے آغاز میں جزیرۂ عرب کی خوبیوں کو اجاگر کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔
****
|