گزشتہ ناکام کوششوں کے بعد رؤسائے قریش نے ایک آخری کوشش کرنی چاہی، چنانچہ سب لوگ جمع ہوکر آپ کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:اگر تم مال چاہتے ہو تو ہم تمہارے لیے اتنا مال جمع کردیں گے کہ تم سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤگے، اور اگر تم سرداری چاہتے ہو تو ہم سب مل کر تمہیں اپنا سردار بنا دیں گے ، اور اگر تم بادشاہت چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ بنا دیں گے، اور اگرتم پر کسی جن کا اثر ہے تو ہم اپنی دولت خرچ کرکے تمہارا علاج کرائیں گے، تاکہ تم شفایاب ہوجاؤ، یاہم تمہیں معذور سمجھنے لگیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: تم جو کچھ کہہ رہے ہو، ان میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں، بلکہ اللہ نے مجھے رسول بناکر مبعوث کیا ہے، اور مجھ پر قرآن کریم نازل کیا ہے، اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم سب کو جنت کی خوشخبری دوں، اور عذاب ِ نار سے ڈراؤں۔ میں نے تو تم تک اپنے رب کا پیغام پہنچایا ہے اور تمہاری خیر خواہی کی ہے، اگر تم میری دعوت کو قبول کرلوگے تو دنیا وآخرت میں یہ تمہاری خوش نصیبی ہوگی، اوراگر تم اس کا انکار کردیتے ہو تو میں صبر کروں گا اور انتظار کروں گا، یہاں تک کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کردے۔
قریش کے غیر معقول مطالبات:
مشرکینِ مکہ نے جب دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تمام مطالبات کو رد کردیاہے تو عقیدۂ توحید کے انکار کے لیے آپؐ سے غیر معقول اور عاجز بنا دینے والے مطالبات کا سلسلہ شروع کر دیا، کہنے لگے: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! اگر تم ہماری کسی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہو تو اپنے رب سے ہمارے لیے یہ سوال کرو کہ ہم سے ان پہاڑوں کو دور کردے جنہوں نے ہم پر مکہ کی زمین کو تنگ کررکھا ہے، ہمارے شہر کو کشادہ کردے، اور اس میں ہمارے لیے شام و عراق کی نہروں کی مانند نہریں جاری کردے، اور ہمارے مردہ آباء واجداد کو دوبارہ زندہ کردے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا: میں تمہارے پاس اس کام کے لیے نہیں بھیجا گیا ہوں ۔ انہوں نے کہا: پھر تم اپنے رب سے یہ سوال کرو کہ وہ تمہاری تصدیق کے لیے تمہارے ساتھ ایک فرشتہ کو بھیج دے، اور تمہارے لیے بہت سے باغات ومحلات اور سونے اور چاندی کے خزانے پیدا کردے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے لیے اللہ سے اس کا سوال نہیں کرسکتا۔ مجھے تو اللہ نے صرف بشیر ونذیر بناکر بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا: تو پھر آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپر گرا دو۔ ہم اس کے بغیر تم پر ایمان نہیں لائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو اللہ کا کام ہے۔
کافروں نے کہا: کیا تمہارے ربّ کو معلوم نہیں کہ ہم تم سے ایسا مطالبہ کریں گے ، تاکہ وہ تمہیں پہلے سے ہی بتا دیتا اور تمہیں خبر دے دیتا کہ وہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا اگر ہم نے تمہاری دعوت کو قبول نہیں کیا۔ اور ہمیں تو یہ خبر ملی ہے کہ یمامہ کا ایک آدمی جس کا نام ’’الرحمن‘‘ ہے ، وہی تمہیں سکھاتا پڑھاتا ہے ، ہم تو اللہ کی قسم! رحمن پر کبھی بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ اے محمد! ہم نے تمہیں سمجھانے کی پوری کوشش کرلی۔
مشرکوں کی یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے چل دیے ، اور آپ کے ساتھ آپ کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب کا بیٹا عبداللہ بن ابو امیہ بھی چل پڑا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا: اللہ کی قسم! میں تم پر ہرگز ایمان نہیں لاؤں گا،
|