کے قاصد صحابی سے کہا: شاید تم سمجھ رہے ہوگے کہ میں اپنی مملکت کے بارے میں خائف ہوں۔ پھر اس کے حکم سے ایک منادی نے اعلان کیا: تم سب جان لو کہ قیصر تم سے راضی ہوگیا، اس نے تو تم سب کو آزمانا چاہا ہے تاکہ دیکھے کہ تم لوگ اپنے دین پر کتنے ثابت قدم ہو، تم سب لوٹ جاؤ، چنانچہ وہ سب لوٹ گئے۔
اس ڈرامہ کے بعد قیصر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں، اُس خط کے ساتھ اُس نے دینار کی شکل میں ایک رقم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھیجی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وہ خط پڑھا تو فرمایا: جھوٹا ہے اللہ کا دشمن، مسلمان نہیں ہوا ہے، اپنی نصرانیت پر باقی ہے۔ اور اُس کی بھیجی ہوئی رقم کو صحابہ میں تقسیم کر دیا۔ [1]
تبوک سے مدینہ واپسی:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک میں بیس دن قیام فرمایا، اُن دنوں آپ قصر نمازیں پڑھتے رہے، وہاں کوئی جنگ نہیں ہوئی، اہلِ تبوک سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدئہ صلح کیا، اور مدینہ واپس چل پڑے۔ آپؐ واپسی میں بھی دیارِ ثمود میں مقام حِجر سے گزرے جہاں کے لوگوں نے صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کُوچیں کاٹ کر اسے ہلاک کر دیا تھا، تو ایک چیخ نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اور سب کے سب مرگئے۔ صحابہ کرام مقام حِجر کے گھروں میں داخل ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرمایا اور کہا: تم لوگ اُن لوگوں کے گھروں میں روتے ہوئے داخل ہو جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تھا، اس ڈر سے کہ کہیں تمہیں بھی اُسی جیسا عذاب نہ اپنی گرفت میں لے لے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی کو مہمیز لگائی اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔ [2]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو وہاں کے کنویں سے پانی پینے اور وضو کرنے سے منع فرمایا، نیز اپنی اونٹنیوں کو وہ آٹا کھلانے سے منع فرمایا جو اُس کنویں کے پانی سے انہوں نے گوندھا تھا، اور اُس کنویں سے پانی پینے کا حکم دیا جس سے اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔ [3]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے راستہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اُن کی اونٹنیاں طولِ سفر سے تھک گئی ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک تنگ جگہ کا انتظار کرتے رہے، وہاں رُکے اور فرمایا: اللہ کا نام لے کر گزرو، تمام لوگ اپنی سواریوں پر وہاں سے گزرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن سواریوں پر پانی چھڑکتے رہے اور دعا کرتے رہے: اے اللہ! تو اپنی راہ میں چلنے والے ان مسلمانوں کو ان سواریوں پر ان کی منزل تک پہنچا دے، تو قوی اور ضعیف ، تر اور خشک ہر سواری کے ذریعہ بحر وبر میں پہنچانے پر قادر ہے۔ اس دعا کے بعد وہ سواریاں تیز چلنے لگیں یہاں تک کہ تمام صحابہ مدینہ منورہ پہنچ گئے، اور کسی کی سواری پیچھے نہ رہی۔[4]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش:
جب سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں سفرِ تبوک کا اعلان کیا، اُس دن سے اسلام اور رسولِ اسلام کے خلاف
|