اِس میں اہلِ بصیرت کے لیے عبرت ہے۔ ‘‘ [1]
انہی دنوں ایک مسلمان عورت جس کی شادی اس کے خاندان سے باہر ایک انصاری سے ہوئی تھی، بازارِ بنی قینقاع میں آئی، اور ایک سنار کے پاس اس سے اپنا زیور لینے کے لیے بیٹھی، ایک یہودی نے اس کے پیچھے چپکے سے آکر اُس کے کپڑے کو ایک کانٹے کے ذریعہ اس کی پشت سے اٹکا دیا، عورت جب کھڑی ہوئی تو اس کی شرمگاہ کھل گئی اور یہود ہنسنے لگے، وہ عورت چیخ پڑی، اس کی آواز سن کر ایک مسلمان پہنچ گیا، اور اس نے یہودی کو قتل کردیا، بنو قینقاع کے یہود نے اس مسلمان کوگھیر کر قتل کردیا، اُس مسلمان کے خاندان والے دیگر مسلمانوں کے پاس گئے اور حقیقتِ حال سے ان کو آگاہ کیا، مسلمان ناراض ہوگئے، اور یہود نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیے گئے عہد نامے کی خلاف ورزی کا اعلان کردیا اور اپنے قلعہ میں بند ہوگئے۔ [2]
یہود بنی قینقاع کی جلا وطنی:
جب انہوں نے نقضِ عہد کا اعلان کردیا اور کھل کر دشمنی کرنے لگے تو مدینہ کے امن وامان کو برقرار رکھنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس مشکل کا حل تلاش کرنا ضروری ہوگیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پر ابو لبابہ بن عبدالمنذ ر کو نائب بنادیا، اور ایک سفید جھنڈا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دے کر بنو قینقاع کے محلہ کی طرف روانہ ہوگئے، اور ان قلعوں کاپندرہ دن تک محاصرہ کیے رکھا، جب محاصرہ شدید ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں خوف ودہشت ڈال دی، تو کہنے لگے: کیا ہم ہتھیار ڈال کر اور یہاں سے نکل کر کسی دوسری جگہ جا سکتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تمہیں اب میرا فیصلہ ماننا پڑے گا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق نیچے اُترے، تو آپ نے انہیں باندھنے کا حکم دیا، اور اُن سب کے ہاتھ پاؤں خوب اچھی طرح باندھ دیے گئے، اوراس کام کی نگرانی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منذر بن قدامہ بن عرفجہ انصاری اوسی رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا۔
اُن کے پاس سے عبداللہ بن اُبی بن سلول گزرا اور کہنے لگا: ان کو کھول دو، منذر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم ان لوگوں کو کھول دوگے جنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے؟ اللہ کی قسم! جو شخص انہیں کھولے گا، میں اس کی گردن ماردوں گا، اِسی ابن ابی نے انہیں قلعہ میں بند ہونے کو کہا تھا، اور کہا تھا کہ وہ بھی اُن کے ساتھ قلعہ میں داخل ہوگا، لیکن اس نے وعدہ وفا نہیں کیا، اور یہود اپنے قلعہ میں بند رہے، نہ ایک تیرچلایا اور نہ جنگ کی، یہاں تک کہ انہیں اپنی جانوں، اپنے اموال اور اپنی عورتوں اور اپنی اولاد کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے کا وعدہ کرنے کے بعدقلعہ سے نیچے اُترنے کی اجازت ملی۔ [3]
ابن اُبی بن سلول کا موقف بنی قینقاع سے متعلق:
ابن اسحاق نے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقینقاع کا محاصرہ کیا، اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو ماننے کا وعدہ کرلیا، تو عبداللہ بن اُبی بن سلول جو خزرجی تھا، اور اسلام سے پہلے بنو قینقاع کے حلیفوں میں سے تھا،
|