Maktaba Wahhabi

621 - 704
کے پاس خرچ کرنے کے لیے مال نہیں ہے۔ ‘‘ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان معذور حضرات کو غزوہ تبوک سے واپس آتے ہوئے مدینہ کے قریب آنے کے بعد یاد فرمایا اور کہا: بے شک مدینہ میں کچھ ایسے لوگ رہ گئے ہیں جو تمہارے ساتھ ہر گام پر اور ہر وادی میں رہے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پوچھا: یا رسول اللہ حالانکہ وہ مدینہ میں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، وہ مدینہ میں ہیں، انہیں عذر شرعی نے شرکتِ جہاد سے روک دیا ہے۔ [1] کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے واقعہ میں بیان کیا ہے کہ جب میں گھر سے نکل کر لوگوں کے پاس جاتا تو مجھے یہ بات غمگین کر دیتی کہ میں اپنے لیے نمونہ کسی ایسے آدمی کو پاتا جو نفاق کے ساتھ متہم ہوتا، یا کسی ایسے آدمی کو جو کمزور وضعیف ہوتا۔ [2] اکثر منافقین تبوک نہیں گئے: اس غزوہ کی ایک خاص بات یہ رہی کہ اکثر منافقین نے تبوک کا سفر نہیں کیا، اور سفر سے پہلے انہوں نے ان غریب ونادار مسلمانوں کا مذاق اڑایا جنہوں نے مالِ قلیل کا صدقہ کیا، اور کہا کہ اللہ کو ایسے حقیر صدقہ کی ضرورت نہیں ہے، اور یہ کہ انہوں نے یہ صدقہ صرف دِکھاوے کے لیے کیا ہے، تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: ((الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ)) [التوبہ:79] ’’جو لوگ اُن مومنین کی عیب جوئی کرتے ہیں جو اپنی خوشی سے صدقہ وخیرات کرتے ہیں، اور ان مومنوں کے صدقے کا بھی مذاق اُڑاتے ہیں جن کے پاس اپنی محنت کی کمائی کے علاوہ صدقہ کرنے کے لیے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ‘‘[3] اِ ن منافقوں نے مجاہدین کے سفر سے پہلے ایک نفسیاتی جنگ یہ شروع کی کہ انہوں نے مجاہدین کی ہمت پست کرنے کے لیے انہیں یہ کہنا شروع کیا کہ لوگو! اتنی شدید گرمی میں سفر کرنے کا کیا تُک ہے، لوگ تو ان دنوں گھنے درختوں کے سایہ میں آرام کیا کرتے ہیں۔ بعض منافقین نے جھوٹے عذر پیش کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تبوک کا سفر نہ کرنے کی اجازت مانگی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو عتاب کیا اور وحی نازل کی: ((عَفَا اللَّـهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ)) [التوبہ:43]
Flag Counter