غزوۂ حمراء الأسد
غزوۂ احد کے بعد دشمنانِ اسلام کا موقف:
میں نے ابھی کچھ پہلے ذکر کیا ہے کہ غزوۂ احد میں مسلمانوں پر جو مصیبت نازل ہوئی اس کے سبب ان پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ گئے، اور مدینہ واپس آنے کے بعد جب انہوں نے یہود، منافقین اور بادیہ نشین مشرکوں کو خوشی مناتے دیکھا اور اندازہ لگایا کہ یہ دشمنانِ اسلام مدینہ کے پھلوں اور اس کی خیرات وبرکات پر تاک لگائے بیٹھے ہیں تو ان کا غم دوہرا ہوگیا۔
منافقین نے لوگوں میں ہر چہار جانب یہ بات پھیلادی کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی فوج شکست کھاگئی، تاکہ عام مسلمانوں کی ہمت ٹوٹ جائے، اورعبداللہ بن ابی بن سلول کے استہزاء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کا مذاق اڑانے کی تو کوئی حد ہی نہیں رہی۔ اس شخص کا پہلے سے طریقہ یہ تھا کہ ہر جمعہ کوایک جگہ کھڑا ہوکر لوگوں سے خطاب کرتا تھا، اور اس کی قوم میں اس کی قدرومنزلت کے سبب کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا تھا، جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیٹھ جاتے تو یہ منافق کھڑا ہوتا اور لوگوں سے کہتا لوگو! تمہارے سامنے یہ اللہ کے رسول ہیں، اللہ نے تمہیں ان کے ذریعہ عزت بخشی ہے، اس لیے تم سب ان کی مدد کرو اور ان کی اطاعت کرو، پھر بیٹھ جاتا۔ جب احد کے دن اس کا نفاق کھل کر سامنے آیا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کامذاق اڑایا، اور پھر جمعہ کے دن معمول کے مطابق لوگوں سے کچھ کہنے کے لیے کھڑا ہوا تو مسلمانوں نے ہر چہار جانب سے اس کے کپڑے پکڑ کر کھینچا اور کہا: اے اللہ کے دشمن! بیٹھ جاؤ، تم اس کے اہل نہیں ہو، تم نے تو جنگ احد کے موقع پر جو کچھ کیا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ تو اللہ کا وہ دشمن لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا اور یہ کہتا ہوا نکل گیا، اللہ کی قسم! اگر میں نے لوگوں کو اس کا ساتھ دینے کی تاکید کی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں نے کوئی بُری بات کہہ دی ہے، مسجد کے دروازے پر ایک انصاری کی اس سے مڈبھیڑ ہوگئی، اس نے پوچھا: تمہیں کیا ہوا ہے ؟ اس نے کہا: میں اُٹھ کر اس کی تائید کرنے لگا تواس کے اصحاب میں سے کچھ میرے خلاف کھڑے ہوگئے اور مجھے برا بھلا کہنے لگے، گویا کہ میں نے کوئی بری بات کہہ دی۔ انصار ی نے کہا: اللہ تم کو ہدایت دے، واپس چلو، تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لیے مغفرت کی دعا کریں، اس منافق نے کہا: اللہ کی قسم ! میں نہیں چاہتا کہ وہ میرے لیے مغفرت کی دعا کرے۔
قرآن ِ کریم نے منافقوں کے اس رُسوا کن موقف کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہاہے:
((أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَن لَّن يُخْرِجَ اللَّـهُ أَضْغَانَهُمْ وَلَوْ نَشَاءُ لَأَرَيْنَاكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُم بِسِيمَاهُمْ ۚ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ أَعْمَالَكُمْ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ)) [محمد: 29-31]
’’ کیا جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے، اُنہوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ اللہ اُن کے کینوں کو ظاہر نہیں
|