کرے گا، اور اگر ہم چاہتے تو آپ کے لیے اُن کی نشاندہی کردیتے، تو آپ اُنہیں اُن کے نشان سے پہچان جاتے، اور آپ یقینا اُنہیں اُن کے طرز گفتگو سے پہچان لیں گے، اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے، اور یقیناتمہیں آزمائیں گے، تاکہ ہم تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو جانیں، اور تاکہ ہم تم سے متعلق خبروں کو آزمائیں۔ ‘‘
نیز کہا ہے:
((إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِن تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا ۖ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ إِنَّ اللَّـهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ)) [آلِ عمران: 120]
’’ اگر تمہیں کوئی بھلائی ملتی ہے تو انہیں تکلیف ہوتی ہے اور اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو اس سے وہ خوش ہوتے ہیں، اور اگر تم صبر کروگے اور اللہ سے ڈرتے رہوگے، تو ان کا مکر وفریب تمہیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچاسکے گا، بے شک اللہ ان کے کرتوتوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ‘‘
اور بد خواہ یہود بھی پہلے سے مسلمانوں پر مصیبت آنے کا انتظار کرتے رہتے تھے، اسی لیے اس جنگ کے بعد وہ بھی بہت زیادہ خوش ہوئے۔
اور یہ احتمال باقی تھا کہ کفارِ قریش اپنی ناکامی پر شرمندہ ہوں اور دوبارہ واپس آکر مدینہ پر حملہ کردیں۔ موسیٰ بن عقبہ نے اس احتمال کی تصدیق کے طور پر لکھا ہے کہ مکہ کا ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا توآپ نے اس سے ابوسفیان اوراس کے ساتھیوں کے بارے میں پوچھا، اس نے کہا: میں ان لوگوں سے ملتا رہا ہوں، میں نے انہیں آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرتے سنا ہے، وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ ’’ تم لوگوں نے کچھ بھی نہیں کیا، تم لوگوں نے مسلمانوں پر غالب آنے کے بعد انہیں چھوڑ دیا اوران کو جڑ سے نہیں کاٹا ‘‘ اس نے مزید کہا: ابھی ان کے بڑے بڑے سرداران موجود ہیں جو تمہارے خلاف جمع ہوں گے۔
دشمنوں کی ہنسی اور مشرکوں کے دوبارہ مدینہ پر حملہ کے بارے میں سن سن کر مسلمانوں کا غم ہر روز بڑھتا جارہا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسا موقف اختیار کرنا ضروری تھا جس کے ذریعہ تمام عربوں کے ذہن میں دوبارہ یہ بات ثبت کر دی جائے کہ مسلمان کمزور نہیں ہوئے ہیں، اوروہ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے اور انہیں بری طرح شکست دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
اسی لیے معرکۂ احد کے دوسرے دن جو شوال سن تین ہجری کی 16/تاریخ اتوار کا دن تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھنے کے بعدیہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ دشمن کا پیچھا کرنے کے لیے جلد ازجلد نکلا جائے اور اس دستہ میں وہی مجاہدین نکلیں جومعرکۂ احد میں شریک ہوئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کا مقصد مجاہدین ِ معرکۂ احد کے مقام کی عظمت کو ظاہر کرنا تھا، نیز یہ کہ مخلص مسلمانوں کے ساتھ کہیں منافقین پھر نہ مل جائیں۔
ان نکلنے والوں کی تعداد چھ سو تیس تھی، اور یہی مجاہدین غزوۂ احد میں شریک ہوئے تھے، سوائے جابر بن عبداللہ بن حرام رضی اللہ عنہ
|