کا خفیہ فیصلہ کیا تھا وہ سب اپنے اپنے ہتھیار لے کر بنی ہاشم اور بنی مطلب کے پاس گھاٹی میں گئے، اور انہیں وہاں سے نکل کر اپنے گھروں میں جانے کا حکم دیا اور کہا: اے ہمارے باپ اور ہماری ماں کے بیٹو! تم یہاں سے نکل چلو، اللہ کی قسم! تم پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا، یہاں تک کہ ہم مرجائیں ، چنانچہ وہ سب کے سب اپنے گھروں میں لوٹ آئے ۔
وفدِ نصاریٔ نجران کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھاٹی سے نکل کر مکہ آجانے کے بعد نصاریٔ نجران کا ایک وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حبشہ کے نصاریٰ سے خبر ملی تھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ حرام میں موجود تھے، وہ سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے، آپ سے باتیں کی، اور بہت سے سوالات کیے ، اُس وقت قریش کے بہت سے لوگ خانۂ کعبہ کے اِردگرد اپنی مجلسوں میں بیٹھے تھے، جب اس وفد کے سوالات ختم ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اللہ کے دین میں داخل ہونے کی دعوت دی، اور ان کے سامنے قرآنِ کریم کی تلاوت کی ، جب انہوں نے قرآن سنا تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، پھر انہوں نے اللہ کے پیغام کو قبول کرلیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی اور آپ کے بارے میں ان سب باتوں کو جانا جو ان کی کتاب انجیل میں پائی جاتی تھیں۔
جب وہ لوگ جانے کے لیے کھڑے ہوئے تو ابوجہل بن ہشام کچھ دیگر قریشیوں کے ساتھ ان کے پاس آیا،اور سب نے مل کر ان سے کہا: اللہ تعالیٰ تمہیں ناکام بنائے ، تمہاری قوم کے لوگوں نے تمہیں اس لیے بھیجا تھا تاکہ تم انہیں واپس جاکر اس آدمی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں خبر دو، لیکن ابھی تم اِس کے پاس ٹھیک سے بیٹھے بھی نہ تھے کہ تم نے اپنا دین چھوڑدیا اور اس کی باتوں کی تصدیق کردی، ہم نے تم سے زیادہ بے وقوف وفد اب تک نہیں دیکھا ، انہوں نے جواب میں کہا: سلام علیکم ، ہم تمہاری طرح نادان نہیں بننا چاہتے ہیں ، ہم اپنے دین پر ہیں اور تم اپنے دین پر۔ ہم نے اپنے آپ کو بھلائی تک پہنچانے میں کسی تقصیر سے کام نہیں لیا ہے، اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ القصص میں نازل فرمایا:
((الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِن قَبْلِهِ هُم بِهِ يُؤْمِنُونَ ﴿52﴾ وَإِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ ﴿53﴾ أُولَـٰئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿54﴾ وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ)) [القصص:52-55]
’’جنہیں ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی، وہ لوگ قرآن پر ایمان لاتے ہیں، اور جب ان کے سامنے اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، بلاشبہ یہ ہمارے ربّ کی برحق کتاب ہے، اور ہم تو پہلے سے ہی مسلمان تھے، یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کی وجہ سے دوہرا اجر دیا جائے گا، یہ لوگ نیکی کے ذریعہ بُرائی کا دفاع کرتے ہیں، اور جو روزی ہم نے انہیں دی ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں، اور جب وہ کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ، ہم تمہیں سلام کہتے ہیں ، ہم نادانوں کی دوستی نہیں چاہتے ہیں۔‘‘
|