تیسرا جواب ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قولِ مذکور میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ لفظ’’کفی‘‘ سے جنس مراد نہ ہو، بلکہ فرد واحد مراد ہو اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ جنس مراد ہو اور دو فرد مراد ہوں۔ اور اس دوسرے احتمال میں تین احتمال ہیں ایک یہ کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی دونوں ہتھیلیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں میں تھیں۔ بصورتِ مسطورہ بالا۔ دوسرا حتمال یہ کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی داہنی ہتھیلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں ہتھیلی میں اور بائیں داہنی میں تھی۔ اور تیسرا احتمال یہ کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی دا ہنی ہتھیلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی داہنی ہتھیلی میں اور بائیں بائیں میں تھی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے دونوں ہاتھ بصورتِ مقراض تھے ۔ ان تمام احتمالات میں سے کسی احتمال سے دونوں ہاتھوں کا مروج مصافحہ ثابت نہیں ہوتا۔ نہ مقراضی اور نہ غیر مقراضی ۔غیر مقراضی کا عدم ان عبارات سے صاف واضع ہے رہا مقراضی مصافحہ ۔سو یہ بھی کسی احتمال سے ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس واسطے کہ جتنے احتمالات مذکور ہوئے ہیں وہ سب احتمالات تو مراد نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قولِ مذکور ایک فعل خاص کی حکایت ہے اور فعل میں عموم نہیں ہوتا ہے۔ کما تقرر فی مقرہ[1]۔ پس ان احتمالات میں سے کوئی ایک ہی احتمال مراد ہو گا اور جو احتمال مراد ہونے کے لیے متعین کیا جائے گا ۔ اس کے مراد ہونے کے لیے کوئی دلیل صحیح نہیں چاہیے۔ بلا دلیل کوئی احتمال ہر گز مراد نہیں ہو سکتا۔ اور ظاہر ہے کہ احتمالاتِ مذکورہ میں ہر ایک احتمال سے مصافحہ مقراضی کی نفی نکلتی ہے۔ الاحتمال اخیر اور احتمالِ اخیر کے مراد ہونے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے۔ بناء علیہ احتمال اخیر سے بھی مقراضی مصافحہ ثابت نہیں ہو سکتا۔ فتفکر |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |