Maktaba Wahhabi

269 - 704
وہاں سے نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے اور ان کے گھر کے پائیں دروازے سے رات کو ہی نکل گئے ۔ان کافروں کے پاس ایک آدمی آیا جو ان کے ساتھ پہلے سے نہیں تھا، اور کہا: یہاں تم لوگ کس کا انتظار کررہے ہو؟ انہوں نے کہا: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ،تو اس آدمی نے کہا: اللہ تعالیٰ نے تم سب کی امید وں پر پانی پھیر دیا ، اللہ کی قسم! محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو کب کا تمہارے سامنے سے نکل کر چلاگیا، اور تم میں سے ہر ایک کے سر پر مٹی ڈال کر یہاں سے نکل گیا، کیا تم اپنی حالت نہیں دیکھتے ہو؟ جب ان میں سے ہر ایک نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھا تو اس پر مٹی ملی، وہ لوگ اسے جھاڑنے لگے۔ وہ مندرجہ ذیل لوگ تھے؛ ابو جہل، حکم بن العاص، عقبہ بن ابی معیط، نضر بن حارث، امیہ بن خلف، زمعہ بن اسد، طعیمہ بن عدی، ابو لہب، ابی بن خلف اور حجاج کے دونوں بیٹے نبیہ اور مُنِبّہ۔ پھر ان سب نے جھانکاتو بستر پر علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا جو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی چادر اوڑھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: یہ تو محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی چادر اوڑھے سویا ہوا ہے، اس لیے وہ اسی طرح صبح تک انتظار کرتے رہے، اور جب علی رضی اللہ عنہ بستر سے اُٹھے تو انہوں نے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا انہوں نے تو کہا: مجھے ان کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ مکہ میں رہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود لوگوں کی امانتیں انہیں واپس کردیں، مکہ والوں کی عادت تھی کہ جب انہیں اپنے کسی چیز کی چوری کا ڈر ہوتا تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بطور امانت رکھ دیتے ، اس لیے کہ ان سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت وامانت کا حال خوب معلوم تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ غارِ ثور میں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے نکلنے کی خبر علی بن ابو طالب اور ابوبکر رضی اللہ عنھما اور ان کے گھرانے والوں کے سوا کسی کو نہیں تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن اریقط لیثی کو کرایہ پر اپنے ساتھ کرلیاتھا، اس لیے کہ وہ راستہ کا بڑا ماہرآدمی تھا، وہ شخص اب تک اپنی قوم قریش کے دین پر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو امین بنایا اور اس کے حوالے اپنی دونوں سواریاں کردیں، اور تین دن کے بعد غارِ ثور میں ملنے کا وعدہ کیا، چنانچہ وہ دونوں سواریاں اسی کے پاس رہیں، انہیں وہ چراتا رہا، اور وعدے کے وقت کا انتظار کرتا رہا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ پتہ چلاتے رہیں کہ لوگ دن میں آپ دونوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ پھر جب شام ہو تو آکر اس دن کی خبر انہیں سنائیں ، اور اپنے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیر ہ کو حکم دیا کہ وہ دن بھر ان کی بکریاں چرائے اور شام کے وقت انہیں غار کے پاس لے آئے، عبداللہ بن ابو بکر رضی اللہ عنہ جب آپ دونوں کے پاس سے مکہ واپس جاتے تو عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ ان کے رہ گزر سے بکریاں لے جاتے، تاکہ ان کے قدم کے نشانات مٹ جائیں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں : ہم نے ان دونوں سواریوں کواچھی طرح تیار کیا، اور آپ دونوں کے لیے ایک تھیلے میں کھانے کا سامان رکھا، اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دوپٹے کا ایک حصہ کاٹ کر اس سے اس تھیلے کے منہ کو باندھا، اسی وجہ سے ان کا نام ذات النطاقین پڑگیا۔ [1]
Flag Counter