Maktaba Wahhabi

269 - 277
میں اپنے بندے کے گمان کے نزدیک ہوں۔(بخاری ومسلم)یعنی میرے ساتھ جیسا گمان نیک یا بد رکھے گا ،میں اس کے ویسے ہی گمان کے نزدیک ہوں، اور اس کے اسی گمان نیک یا بد کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کروں گا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگوں میں سے ہر ایک شخص کو بس اسی حالت میں مرنا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کیساتھ حسن ظن رکھے۔‘‘(مسلم) ہاں اپنے گناہوں سے نڈر بھی نہیں ہونا چاہیے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان شخص کے پاس تشریف لے گئے اور وہ جان کنی کی حالت میں تھا، پس آپ نے فرمایا تو اپنے کو کیسا پاتا ہے؟ اس نے کہا، میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ایسے وقت میں جس بندے کے دل میں یہ دونوں باتیں جمع ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز دیتا ہے جس کی وہ امید رکھتا ہے اور بے خوف کرتا ہے اس چیز سے جس سے وہ ڈرتا ہے۔(ترمذی) فائدہ: موت کی سختی اور سکرات کی شدت کو مکروہ سمجھنا اور ناپسند کرنا نہیں چاہیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی موت کی سختی ہوئی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ٹیک دیے ہوئے انتقال فرمایا۔ پس میں آپ کے بعد کسی شخص کے واسطے موت کی سختی کو ناپسند نہیں کرتی۔(بخاری) اور ایک روایت میں ہے کہ آپ کی موت کی سختی دیکھنے کے بعد کسی شخص کی موت کی آسانی پر میںشک نہیں کرتی۔(ترمذی) فائدہ: ناگہانی موت کے بارے میں مختلف روایتیں آئی ہیں۔ بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھی نہیں۔عبید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ناگہانی موت غضب کی پکڑ ہے۔(ابو داود) اور بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ناگہانی موت اچھی ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ناگہانی موت مومن کے واسطے راحت ہے اور فاجر کے واسطے غضب ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ )
Flag Counter