Maktaba Wahhabi

270 - 704
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار ثور کی طرف چل پڑے جو مکہ کے نچلے حصہ کے ایک پہاڑ میں تھا، اور ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلتے اور کبھی پیچھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر کہا: اے ابوبکر! کیا بات ہے کہ آپ کبھی میرے آگے اور کبھی میرے پیچھے چل رہے ہیں ؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے دشمنوں کا آپ کو ڈھونڈنایاد آتا ہے ، تو آپ کے پیچھے چلنے لگتا ہوں اور کبھی آپ کے گھات میں بیٹھے ہوئے کسی دشمن کا خیال آتا ہے تو آپ کے آگے چلنے لگتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: اے ابو بکر! کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ اگر کوئی مصیبت آتی تو میرے بجائے آپ پر آتی۔ انہوں نے کہا: ہاں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبیٔ برحق بناکر مبعوث کیا ہے، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ کوئی بھی تکلیف آ پ کے بجائے مجھے پہنچے۔ جب دونوں غار کے پاس پہنچے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! آپ اپنی جگہ پر رُکیے، تاکہ میں غار کی طرف سے آپ کے بارے میں اچھی طرح مطمئن ہوجاؤں، پھر غار میں داخل ہوئے اور اچھی طرح اطمینان کیا، جب نکل کر باہر آنے لگے تو انہیں یاد آیا کہ اس میں ایک سوراخ ہے جس کو انہوں نے ٹھیک سے نہیں دیکھا ہے، اس لیے دوبارہ کہا: یار سول اللہ! آپ اپنی جگہ رُکیے، تاکہ میں سوراخ کی طرف سے اطمینان کرلوں، پھر داخل ہوئے اور اطمینان کرکے نکلے اور کہا: یارسول اللہ! اب اندر چلیے۔ اور یہ روایت سند ِ صحیح سے ثابت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب ہجرت کی رات ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کی تفصیلات کو سنا تو کہنے لگے ، اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وہ ایک رات تمام آلِ عمر کی زندگیوں سے بہتر ہے۔ [1] جب مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پرنہیں پایا تو بپھر اُٹھے اور آپ کے نقشِ قدم کے مطابق آپ کو تلاش کرتے ہوئے جبلِ ثور کے پاس پہنچے، وہاں پہنچ کر انہیں کچھ سمجھ میں نہ آیا تو پہاڑ پر چڑھے اور غار کے پاس سے گزرے اور اس کے دروازے پر مکڑی کا جالا دیکھا تو کہنے لگے : اگر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس غار میں داخل ہوا ہوتا تو اس کے دروازے پر مکڑی کا یہ جالا نہ ہوتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس غار میں تین رات رہے۔ [2] حافظ ابن عساکر اور حافظ ابو نعیم ابو مصعب مکی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک، زید بن ارقم اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنھم کی زبان سے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غار میں تھے تو اللہ تعالیٰ نے ایک درخت کو اس کے دہانہ پر اُگادیا جس سے آپ چُھپ گئے، اور دو جنگلی کبوتریوں کو حکم دیا جو غار کے دہانہ پر کھڑی ہوگئیں ، ادھر نوجوانانِ قریش اپنی لاٹھیوں ، نیزوں اور اپنی تلواروں کے ساتھ آپ کو تلاش کرتے ہوئے جب وہاں پہنچے اور آپ سے چالیس گز کے فاصلے پر تھے تو ان
Flag Counter