سب سے پہلے پڑاؤ ڈالا تھا، اور اس میں ایک مسجد بناکر رات کے آخری پہر میں تہجد کی نماز پڑھی تھی، اس طرح دشمنوں کے شب خوں مارنے اور دیگر تمام قسم کے خوف وہراس سے محفوظ ہوگئے، اس لیے کہ نطاۃ میں رہنے والے یہودی سب سے زیادہ قوی اور مضبوط تھے۔ [1]
قلعۂ اُبی کی فتح:
میں نے ابھی اوپر لکھا ہے کہ تمام یہود بھاگ کر قلعۂ اُبی میں جمع ہوگئے تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شق کے علاقے کی طرف متوجہ ہوئے جس میں کئی قلعے پائے جاتے تھے، اور وہاں کے سب سے پہلے قلعہ قلعۂ اُبی کا محاصرہ کرلیا، نیز مسلمانوں نے سمران نامی ایک قلعہ کا بھی محاصرہ کیا، جس میں رہنے والے یہودیوں نے زبردست جنگ کی، اور ایک یہودی نے اس سے نکل کر جنگ کرنے کا چیلنج کیا، اس کے چیلنج کا جواب حُباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے دیا، اور نصف بازو سے اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا، جس کی تاب نہ لاکرقلعہ کی طرف بھاگ گیا، حُباب رضی اللہ عنہ نے اس کا پیچھا کرکے اس کی پنڈلی کاٹ ڈالی، اور اس کا قصہ تمام کردیا، ایک دوسرا یہودی چیلنج کرتا ہوا باہر نکلا، جس سے جنگ کرنے کے لیے آلِ جحش کا ایک آدمی سامنے آیا جو شہید کردیا گیا، اور وہ یہودی اپنی جگہ کھڑا دوبارہ مسلمانوں کو چیلنج کرنے لگا چنانچہ ابودجانہ رضی اللہ عنہ اس کے سامنے آئے اور اس پر حملہ کرکے اس کی دونوں ٹانگیں کاٹ ڈالیں، اور اسے قتل کردیا، اور اس کی تلوار اور ڈھال لے لی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے انہیں وہ دونوں چیزیں دے دیں۔
مسلمانوں نے بلند آواز میں تکبیر کہی اور قلعہ پر زبردست حملہ کرکے اس میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے، مجاہدین میں سب سے آگے ابودجانہ رضی اللہ عنہ تھے، اِس قلعہ میں مسلمانوں کو بہت سارا مال ومتاع،بکریاں اور کھانے کی چیزیں ملیں، اور وہاں سے جنگ کرنے والے یہودی نکل کر بھاگ پڑے، اور قلعہ نزار میں جاکر بند ہوگئے۔
قلعۂ نزار کی فتح:
یہ قلعہ علاقۂ شق کا سب سے مضبوط قلعہ تھا، اس میں تمام یہود جمع ہوگئے ، ان کا گمان ہوا کہ مسلمان کسی بھی حال میں اس میں داخل نہیں ہوسکتے، اس لیے کہ یہ ایک بلند پہاڑ پر واقع مضبوط ترین قلعہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے ساتھ اس کی طرف پیش قدمی کی اور وہاں پہنچ کر ان سے جنگ کرنے لگے۔ یہود تیراندازی اور سنگ باری کے ذریعہ سخت مقابلہ کرنے لگے۔ یہاں تک کہ بعض تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے کو چھو گئے، اور بعض اس میں لٹک گئے، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منجنیق نصب کرنے کا حکم دیا اور اس کی مسلسل ضربوں سے قلعہ کی دیواروں میں شگاف ڈال دیا، اور اس میں داخل ہوگئے، اور قلعہ کے اندر شدید جنگ ہونے لگی، لیکن یہود اسلامی فوج کے زبردست حملہ کے زیرِ اثر بالآخر شکست خوردہ ہوکر بھاگ پڑے اور اپنی عورتوں اور اپنی اولاد کو مسلمانوں کے لیے چھوڑ گئے۔ انہیں میں صفیہ بنت حُیَيْ اور اُن کی چچا زاد بہن تھیں۔
یہود بھاگ کر خیبر کے جنوب مغربی علاقے میں واقع قلعۂ قموص میں جاکر بند ہوگئے اور ان میں سے بعض وطیح اور سلالم نامی دو قلعوں میں بند ہوگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قلعہ نزار کو دیکھ کر فرمایا کہ خیبر کا یہ آخری قلعہ ہے جہاں جنگ ہوئی ہے، محمد
|