تحقیق ہے، اور سورۃ البقرۃ کی آیتِ کریمہ(196) : ((وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّـهِ ۚ)) ’’ اور حج وعمرہ اللہ کے لیے پورا کرو۔ ‘‘ نازل ہوئی، امام شافعی رحمہ اللہ کی یہی تحقیق ہے اور اسی لیے ان کا خیال ہے کہ حج کی فرضیت کے شروط پائے جانے کے بعد اسے فوراً ہی ادا کرنا ضروری نہیں، بلکہ تاخیر کرنا جائز ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حج کی فرضیت سن نو یا دس ہجری میں ہوئی، اور حج فرض ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً بلاتاخیر حج کیا۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اسی رائے کو راجح قرار دیا ہے، اور لکھا ہے کہ باری تعالیٰ کا قول: ((وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّـهِ ۚ)) اگرچہ سن چھ ہجری حدیبیہ کے سال نازل ہوا، لیکن اُس میں حج کی فرضیت کی کوئی بات نہیں ہے، بلکہ اس میں صرف اتمامِ حج کا حکم دیا گیا ہے کہ ان دونوں کو شروع کرنے کے بعد انہیں پورا کیا جائے، اور یہ بات اُن کی ابتدا کے وجوب کا تقاضا نہیں کرتی۔
بہت سے علمائے امت نے امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے کوترجیح دی ہے، یعنی حج کی فرضیت اللہ کی طرف سے سن چھ ہجری میں نازل ہوئی، اور حج اسلام کا ایک رکن ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی ادائیگی کو صاحبِ استطاعت پر فوراً ہی واجب نہیں کیا ہے، بلکہ تاخیر کرنا جائز ہے، اور امتِ اسلامیہ کے لیے اسی میں آسانی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال حج نہیں کیا، بلکہ عمرہ کرکے مدینہ واپس چلے گئے، اور مسلمانوں نے سن آٹھ ہجری میں مشرکوں کے ساتھ حج کیا اور سن نو ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر الحج بناکر بھیجا۔وہ ماہِ ذی الحجہ میں مکہ کی طرف روانہ ہوئے، جیسا کہ ابن سعد نے طبقات میں اور ابن اسحاق نے اپنی کتاب السیرۃ میں بیا ن کیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن دس ہجری میں حج کا ارادہ کیا، اور ذی القعدہ کی پچیس تاریخ کو مدینہ سے نکلے، اور عرفہ میں وقوف کیا، اور مسلمانوں کے ایک جمّ غفیر کے ساتھ اپنا حج پورا کیا، اور عرفہ کے میدان میں الوداعی خطبہ دیا، اور صحابہ کرام سے فرمایا: مجھ سے تم لوگ اپنے حج کے اعمال سیکھ لو۔ اِس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک حج بہت سارے شرعی اَحکام، نصائح ووصایا اور دینِ اسلامی کے بے شمار احکام کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے تمام ہوا۔
بادشاہوں اور امراء کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط:
صلح حدیبیہ کے مُثبت نتائج کا ذکر کرتے ہوئے میں نے پہلے لکھا ہے کہ اس معاہدۂ صلح نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اسلام کی نشرواشاعت کا زریں موقع عطا کیا، اور دعوتِ اسلامیہ کا دائرہ جزیرہ عربیہ کے داخل اور خارج میں پھیلتا چلاگیا۔
اسی ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ سے واپس آنے کے بعد بہت سے شاہانِ عالم کو خطوط لکھے، اُن کے پاس اپنے قاصد بھیجے، اور انہیں اللہ کا دینِ برحق دینِ اسلام قبول کرلینے کی دعوت دی جسے اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوعِ انسان کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اقدام یقینا پیغام اسلام کی عالم گیریت کی عملی تعبیر تھا، جس کی وضاحت باری تعالیٰ نے سورۃ الأنبیاء کی آیت(107) ((وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ))’’ اور ہم نے آپ کو سارے جہان والوں کے لیے سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے‘‘ اور قرآن کریم کی دیگر آیتوں میں فرمادی ہے۔
|