Maktaba Wahhabi

175 - 704
عفیف کِندی رضی اللہ عنہ دیر سے اسلام لائے، اور کہا کرتے تھے: اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اسی دن اسلام کی نعمت سے نواز دیا ہوتا تو میں علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے ساتھ اسلام لانے والا زمین پر دوسرا آدمی ہوتا۔ [1] زید بن حارثہ بن شرحبیل کلبی رضی اللہ عنہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ): زید بن حارثہ، حکیم بن حزام رضی اللہ عنھما کے غلام تھے، انہوں نے انہیں اپنی پھوپھی امّ المؤمنین خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا کو دے دیا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خدیجہ رضی اللہ عنہ سے اپنے لیے مانگ لیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نبوت سے پہلے ہی آزاد کرکے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا، اور لوگ انہیں زید بن محمدکے نام سے پکارنے لگے، یہاں تک کہ اسلام نے منہ بولا بیٹا بنانے کو حرام کردیا، تب وہ اپنے باپ حارثہ کی طرف منسوب ہوکر زید بن حارثہ کہلانے لگے۔ انہوں نے جلد ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اورمسلمان ہوگئے، اور وہ اور علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے لگے۔ ابو بکر بن ابی قحافہ تیمی قرشی : سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام مکارمِ اخلاق سے باخبر تھے، اور خوب جانتے تھے کہ جھوٹ بولنا آپ کی فطرت سے بعید تر بات ہے ۔ جب انہوں نے اسلام کی دعوت کے بارے میں سُنا تو فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ،اور پوچھا: اے محمد! کیا اہلِ قریش سچ کہہ رہے ہیں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ، میں اللہ کا رسول اور اس کا نبی ہوں ، مجھے اس نے اپنی پیغام رسانی کے لیے مبعوث کیا ہے ، اور میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ۔ اللہ کی قسم! اسی کی ذات برحق ہے، اے ابو بکر ! میں تمہیں ایک اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، جس کا کوئی شریک نہیں ، اور جس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قرآن پڑھ کر سنایا۔ابو بکر رضی اللہ عنہ فوراً اسلام لے آئے اور بُت پرستی اور شرک باللہ کا انکار کرکے اسلام کی حقانیت پر ایمان لے آئے، اور جب گھر لوٹے تو وہ صدق دل سے مؤمن تھے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: میں نے کسی کوبھی اسلام کی دعوت دی تو اس نے کچھ نہ کچھ پس وپیش سے کام لیا سوائے ابو بکر کے ، انہوں نے میری بات سننے کے بعد ذرا بھی پس وپیش نہیں کیا۔[2] صحیح بخاری میں سیّدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے مجھے تمہاری طرف بھیجا تو تم لوگوں نے کہا: تم جھوٹے ہو ،اور ابو بکر نے کہا : آپ نے سچ کہا، اور اپنی جان اور اپنے مال سے میری مدد کی۔ [3] سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام کا اعلان کیا، اور لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا ،اور وہ اپنی قوم میں محبوب اور نرم خو آدمی جانے جاتے تھے ، اور قریش میں سب سے زیادہ انساب کے ماہر تھے، اور قریش کی خوبیوں اور برائیوں کو سب
Flag Counter