Maktaba Wahhabi

236 - 704
اس کے دونوں بھائیوں کے سامنے اپنی دعوت اُس وقت پیش کی ہو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف گئے تھے بلکہ یہی بات زیادہ قرینِ قیاس ہے ۔ طائف سے واپسی: جب اہلِ طائف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول نہیں کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغموم ومہموم مکہ واپس آگئے، یہ واقعہ ماہ ذی القعدہ 10 نبوی کا ہے ، اُس وقت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ دوبارہ مکہ میں کیسے داخل ہوں گے؟اہلِ مکہ نے تو آپ کو نکال دیا ہے ، تو آپ نے فرمایا: اے زید! تم دیکھوگے کہ اللہ تعالیٰ میرے لیے کشادگی فراہم کرے گا، اور میری دعوت کے لیے راہ ہموار کردے گا ، بے شک اللہ اپنے دین کا حامی وناصر اور اپنے نبی کو غالب بنانے والا ہے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا کے پاس پہنچے، تو خزاعہ کے ایک آدمی کو اخنس بن شریق کے پاس بھیجا اور اس سے طلب کیا کہ وہ آپ کو پناہ دے ، تاکہ آپ اپنے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں ، تو اس نے معذرت کردی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سہیل بن عمرو کے پاس بھیجا، اس نے بھی معذرت کردی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مطعم بن عدی کے پاس بھیجا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طلب کو قبول کرلیا، اور کہا: ہاں ، ان سے کہو کہ وہ مکہ میں داخل ہوجائیں ، چنانچہ آپ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ 23/ذی القعدہ کو مکہ میں داخل ہوئے، اور مسجدِ حرام میں آکر دو رکعت نماز پڑھی، پھر اپنے گھر چلے گئے ، او رمکہ میں اللہ نے جب تک چاہا قیام پذیر رہے ، یہاں تک کہ ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے ۔ ایامِ حج میں قبائلِ عرب کو اسلام کی دعوت: جیسا کہ میں نے ابھی اُوپر لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ ذی القعدہ 10نبوی میں موسمِ حج کے قریب ہونے کے سبب طائف سے مکہ واپس آگئے، اس لیے کہ دعوتِ اسلامیہ کے اعلان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ یہ ہوگیا تھا کہ جو لوگ حج یا عمرہ کے لیے مکہ آتے ان کے سامنے اپنی دعوت پیش کرتے ، اور ہجرت سے قبل کے آخری سالوں میں حج کے زمانہ میں جب اشخاص وقبائل سے ملتے تو جہاں ان سے اپنی دعوت کو قبول کرنے کی بات کرتے ، ان سے یہ بھی کہتے کہ وہ آپ کا ساتھ دیں، اور دشمنوں سے آپ کی حفاظت وحمایت کریں ، اس لیے کہ کفارِ قریش نے اعلانیہ آپ کو قتل کرنے کی دھمکی دے دی تھی۔ اسی لیے ماہ ذی القعدہ کے آخری دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے مکہ آگئے، تاکہ قبائلِ عرب اور ان کے زعماء سے مل کر ان کے سامنے اپنی دعوت رکھیں اور اپنی ضرورت بیان کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہا کرتے تھے :’’ کیا کوئی ایسا آدمی ہے جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے چلے، اس لیے کہ قریش والوں نے مجھے میرے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچانے سے روک دیا ہے۔‘‘ انہیں بتاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بھیجے ہوئے نبی ہیں، اور کہتے تھے کہ وہ آپ کی تصدیق کریں ، اور آپ کا دفاع کریں ، تاکہ آپ اللہ کا پیغام کھل کر پیش کرسکیں۔ ایام حج میں قبائلِ عرب کے سامنے دعوتِ اسلامیہ کو پیش کرنے سے متعلق بعض تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں : 1- امام احمد، بیہقی اور ابو نعیم رحمہم اللہ نے ربیعہ الدیلی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں نے زمانۂ جاہلیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بازار ذی المجاز میں یہ کہتے ہوئے سُنا: لوگو! تم لا إلہ إلا اللّٰہ کہو، کامیاب ہوجاؤگے، اور لوگ آپ کے اِرد گرد جمع
Flag Counter