یہی صراحت اور دھوکا دہی اور دغا بازی سے نفرت یثرب کے سیّدنا اسعد بن زُرارہ رضی اللہ عنہ کے قول سے عیاں تھی، جب انہوں نے بیعۃ العقبہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہلِ یثرب سے کہتے سنا جو اسی بیعت کی خاطر ستر افراد پر مشتمل وفد کی شکل میں آئے تھے کہ’’ وہ لوگ آپ کے ہاتھ پر ہر حال میں سمع وطاعت کی بیعت کریں گے، اور آسانی وتنگی میں اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے، اور بھلائی کا حکم دیں گے، اور بُرائی سے روکیں گے … اور آپ کی مدد کریں گے، اور دشمنوں کے خلاف آپ کا دفاع کریں گے۔‘‘ اور اسی طرح کی دوسری باتیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت کہیں۔
تو سیّدنا اسعد بن زُرارہ رضی اللہ عنہ نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا جو لوگوں میں سب سے کم سِن تھے او رکہا: اے اہلِ یثرب ! ٹھہرجاؤ، ہم لوگ اتنا طویل اور دشوار گزار راستہ طے کرکے اس یقین کے ساتھ آئے ہیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے رسول ہیں، اور ان کو یہاں سے نکال کر اپنے شہر یثرب لے جانا تمام عربوں کی مخالفت مول لینی ہے، اور تمہارے اچھے لوگ مارے جاسکتے ہیں ، اس لیے تمہیں اِن تمام آزمائشوں پر صبر کرنا ہوگا، اور تمہیں اس کے بدلے اللہ کی طرف سے اجر ملے گا، اور اگر تم اپنے بارے میں ڈرتے ہو کہ تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کوبزدلی دکھاؤگے تو آج ہی سے اِن کو بتادو تو شاید اللہ کے نزدیک تم معذور سمجھے جاؤگے۔
لوگوں نے کہا: اے اسعد !تم ہمارے سامنے سے ہٹو، اللہ کی قسم! اس بیعت کو ہم کبھی نہیں چھوڑیں گے، اور ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ اس نعمت کو ہم سے چھین لیا جائے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھرہم سب لوگ آپ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت ہمارے سامنے کچھ شرطیں رکھیں، اور ہمیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ہمیں جنت دے گا۔ [1]
(2) جزیرۂ عرب ایک زبردست مضبوط قلعہ:
یاقوت حموی نے معجم البلدان میں ابو منذر ہشام بن محمد بن سائب کلبی کی سند کے ذریعہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ بلادِ عربیہ کا نام جزیرہ اس لیے پڑگیا کہ وہ اپنے چاروں طرف سے نہروں اور سمندروں سے گھِرا ہونے کے سبب سمندری جزیروں میں سے ایک جزیرہ کے مانند ہوگیاہے ۔
عربوں کے نزدیک جزیرۂ عرب کے حدود مندرجہ ذیل ہیں :جنوب کی طرف سے بحر عُمان، پھر خلیجِ عرب (خلیجِ فارس) اور بحر الہند اور خلیجِ عدن، اور مغرب کی طرف سے بحرِ احمر (بحر ِقلزم) پھر صحرائے سینا اور بحرِ ابیض، اور شام کی جانب سے شمال مغرب میں نہر فرات سے لے کر قنسرین تک کا علاقہ۔
جس طرح یہ علاقہ تین جہات سے سمندروں سے گھِرا ہوا ہے، اس کا اندرونی علاقہ پہاڑوں کے ایک سلسلہ سے عبارت ہے، جو اس کے مغرب سے مشرق تک پھیلا ہوا ہے۔ ان پہاڑوں کے نام جبالِ سراۃ ہیں جو بلادِ عرب کے سب سے بڑے پہاڑ مانے جاتے ہیں۔ اس میں سے’’ تہامہ ‘‘ کااکثر حصہ سخت گرم اور پودوں سے تقریبًا خالی ریگستان ہے۔ اور
|