سریّہ غالب بن عبداللہ لیثی مقامِ مَیفَعہ کی طرف:
رمضان سن سات ہجری میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غالب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو مَیفَعہ والوں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا جو بطنِ نخل کے بعد نجد کے علاقہ میں واقع تھا، اُن کے ساتھ ایک سو تیس سوار تھے، اور اُن کے رہنما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام یسار تھے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے کافروں پر حملہ کر دیا، اُن میں سے کچھ کو قتل کیا اور کچھ کو قیدی بنا لیا۔ اور جب معرکہ جاری تھا تو اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے ایک مشرک کا پیچھا کیا، جب اس آدمی نے موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے رقص کرتے دیکھا تو پکار اُٹھا: لا اِلہ اِلاّ اللّٰہ، لیکن اُسامہ رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھ کر اسے قتل کر دیا کہ اس نے محض اپنی موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا ہے۔ یہ خبر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہنچی تو فرمایا: اے اسامہ! تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھا کہ وہ صادق تھا یا کاذب۔ اُسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اب کسی ایسے آدمی کو ہر گز قتل نہیں کروں گا جو اس بات کی گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اسامہ! کیا تم نے اس کی زبان سے کلمہ لااِلہ اِلا اللہ سننے کے بعد اُسے قتل کر دیا؟ اُسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس نے اپنی جان بچانے کی کوشش کی تھی، اُسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کاش میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔ [1]
سریّہ بشیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ یمن وجَبَار کی طرف:
یہ سریّہ ماہِ شوال سن سات ہجری میں بھیجا گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ مقام جِناب میں رہائش پذ یر قبیلۂ غطفان کے کچھ لوگوں سے عُیینہ بن حِصن الفزاری نے وعدہ کیا ہے کہ سب اکٹھے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مدینہ میں حملہ کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ کو بلا کر ایک جھنڈا دیا، اور تین سو آدمیوں کی معیت میں اُن کو روانہ کیا، یہ لوگ رات کو سفر کرتے اور دن کو چھپ جاتے، یہاں تک کہ یمن وجَبَار پہنچے، پھر دشمنوں کے قریب پہنچے، اور اُن کے بہت سارے جانوروں پر قابض ہوگئے، چرواہے بھاگ پڑے، اور جاکر سب کو خبر کر دی، پھر سبھی بھاگ پڑے اور علاقہ کی بالائی جگہوں پر جاکر پناہ گزیں ہوگئے۔ بشیر رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کی جگہ پہنچے تو وہاں کو ئی نہ تھا اس لیے جانوروں کو لے کر واپس چل پڑے، جب مقام ’’سلاح‘‘ پر پہنچے تو عُیینہ کا ایک جاسوس ملا، انہوں نے اُسے پکڑ کر قتل کر دیا۔ پھر عُیینہ کو اچانک جالیا اور ان کے ساتھ جھڑپیں ہونے لگیں، اور آخر میں عُیینہ کی جماعت بھاگ پڑی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے ان کا پیچھا کیا، اور ایک دو آدمی کو قیدی بناکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر کیا، وہاں وہ مسلمان ہوگئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑ دیا۔ [2]
عُمرۃ القضاء:
سن سات ہجری میں جب ماہِ ذی القعدہ کا چاند طلوع ہوا، یعنی خیبر سے واپسی کے تقریباً چار ماہ بعد، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو عمرہ کرنے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ جو لوگ صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے تھے ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہے، سوائے ان کے جو معرکۂ خیبر میں شہید ہوگئے، یا وہ لوگ جو وفات پاگئے، اور ان حضرات کے ساتھ کچھ دیگر مسلمان بھی ہو لیے
|