’’بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ پروانۂ امن ہے اللہ تعالیٰ اور محمد نبی کی طرف سے یُوحنّا بن رؤبہ اور اہلِ اَیلہ کے لیے، اور اُن کی کشتیوں اور سواریوں کے لیے بحر وبر میں۔ اُن کے لیے اللہ تعالیٰ اور محمد نبی کا عہد وپیمان ہے، اور اُن تمام کے لیے جو اُس کے ساتھ ہیں شام ویمن اور سمندر کے لوگوں میں سے۔ اِن میں سے جو کوئی نئی بات پیدا کرے گا اُسے کوئی بچا نہ سکے گا۔ اور یہ عہد اچھا ہے اُن لوگوں کے لیے جو اس کے پابند رہیں گے۔ اور کسی کے لیے یہ حلال نہیں ہوگا کہ وہ انہیں کسی پانی کے چشمہ یا کسی بحری یا برّی راستہ سے روکے۔‘‘ [1]
شہرِ طیبہ اور جبلِ اُحد:
مذکور بالا حدیث میں آیا ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ ہم سب جب وادیٔ قریٰ میں پہنچے تو آپؐ نے فرمایا: میں جلد ہی مدینہ پہنچنا چاہتا ہوں، تو تم میں سے جو کوئی جلد جانا چاہتا ہے وہ ایسا کرلے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم سب آگے بڑھ چلے، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے بالکل قریب پہنچ گئے تو فرمایا: ’’ ہٰذِہِ طَابَۃٌ ‘‘ یعنی ’’یہ شہرِ طیبہ‘‘ ہے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبلِ اُحد کو دیکھا تو فرمایا: یہ اُحد پہاڑ ہے، یہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اِس سے محبت کرتے ہیں۔ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ انصار کے کون سے گھر سب سے بہتر ہیں؟ ہم نے کہا: ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصار کے سب سے اچھے گھر بنو نجّار کے گھر ہیں، پھر بنو عبد الاشہل کے، اور بنو ساعدہ کے، پھر انصار کے تمام گھروں میں خیر ہے۔ [2]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال:
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الجہاد میں سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے مدینہ واپس آئے، تو لوگوں نے شہر سے نکل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا، میں بھی بچوں کے ساتھ ثنیۃ الوداع پہاڑ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا۔ [3]
بیہقی نے روایت کی ہے کہ عورتیں مندرجہ ذیل اشعار پڑھ رہی تھیں:
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوِدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا
مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاع[4]
|