سریّہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تربہ کے قبیلہ ہوازن کی طرف:
شعبان سن سات ہجری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ ہوازن کی ایک جماعت جو مکہ سے دو دن کی مسافت پر واقع مقامِ تربہ میں رہائش پذیر تھی، مسلمانوں سے اظہار عداوت کرتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ کو تیس آدمیوں کے ساتھ ان کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ بنی ہلال کے ایک رہنما کے ساتھ نکلے، رات کو چلتے اور دن کو چھپ جاتے۔ لیکن ہوازن والوں کو خبر ہوگئی اور وہ بھاگ پڑے، عمر رضی اللہ عنہ ان کے مقامِ رہائش پر پہنچے تو وہاں کسی کو نہ پایا، اور مدینہ واپس آگئے۔ [1]
سریّہ ابوبکر رضی اللہ عنہ دیارِ نجد کے قبیلہ بنی کلاب کی طرف:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی سال ماہِ شعبان میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو فُزارہ کی طرف بھیجا۔ سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو فزارہ کی طرف بھیجا، ہم جب ان کے پانی کے قریب پہنچے، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پڑاؤ ڈال دیا، جب ہم نے فجر کی نماز پڑھ لی تو انہوں نے اُن پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ جب ان کے پانی کے پاس پہنچے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ اور ہم نے دشمنوں میں سے کچھ کو قتل کیا۔ سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہماری نظر کچھ گردنوں پر پڑی تو میں ڈرا کہ یہ لوگ کہیں سبقت کرکے ہم سے پہلے پہاڑ تک نہ پہنچ جائیں، چنانچہ میں نے اُن کے اور پہاڑ کے درمیان ایک تیر پھینکا، انہوں نے جب تیر دیکھا تو کھڑے ہوگئے، اور میں اُن سب کو ہانک کر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا۔ [2]
سریّہ بشیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ فدک کے بنی مُرّہ کی طرف:
اسی ماہِ شعبان میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ کو تیس آدمیوں کے ساتھ فدک میں مقیم بنی مُرّہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ جب وہاں پہنچے تو کوئی نہیں ملا، صرف ان کے اونٹ اور بکریاں ملیں جنہیں وہ ہانک کر مدینہ کی طرف چل پڑے، لیکن ابھی بشیر رضی اللہ عنہ وادی میں ہی تھے کہ بنی مُرّہ کے ایک آدمی نے چیخ کر اپنی قوم کو آواز دی، اور انہوں نے بشیر رضی اللہ عنہ کو آلیا، اور دونوں طرف سے تیر اندازی شروع ہوگئی یہاں تک کہ بشیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے تیر ختم ہوگئے، اور صبح ہوگئی، صبح کے وقت دونوں جماعتوں کے درمیان سخت لڑائی ہوئی جس میں اکثر مسلمان شہید ہوگئے، اور بشیر رضی اللہ عنہ بُری طرح زخمی ہوکر مسلمان مقتولین کے درمیان پڑے رہے جب شام ہوئی تو بڑی مشکل سے چل کر فدک پہنچے، اور ایک یہودی کے پاس چند دن رُکے رہے یہاں تک کہ اُن کا زخم کچھ مندمل ہوگیا تب کسی طرح مدینہ پہنچے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غالب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دو سو آدمیوں کی معیت میں بھیجا، اُن کے ساتھ اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی تھے، جب یہ لوگ بشیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی جگہ پر پہنچے، تو بنی مُرّہ کے آدمی برسرِ پیکار ہوگئے، ایک گھنٹہ تک جنگ ہوتی رہی، اس کے بعد مسلمان مجاہدین نے اپنے دشمنوں کو اپنی تلواروں کی اَنیوں پر لے لیا، انہیں قتل کیا، اور اُن کی عورتوں اور جانوروں پر قبضہ کر لیا۔ اس جنگ کے غنائم سے ہر ایک مجاہد کو دس دس اونٹ یا اسی کے مساوی بکریاں ملیں۔ [3]
|