کرتے ہیں کہ مکہ کے اسّی (80) جوانوں نے ہتھیاروں سے لیس ہوکر جبل تنعیم کی طرف سے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ جانا چاہا تاکہ دھوکہ دے کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام پر حملہ کردیں، لیکن وہ پکڑلیے گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل نہیں کیا، اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا:
((وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا)) [الفتح: 24]
’’ اور اسی اللہ نے وادئ مکہ میں اُن کے ہاتھ تم سے روک دیے، اور تمہارے ہاتھ اُن سے روک دیئے، اِس کے بعد کہ اُس نے تمہیں اُن پر غالب بنادیا تھا۔ ‘‘
مسند احمد میں مروی عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ ثابت ہے کہ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سہیل بن عمرو کے درمیان صلح نامہ لکھا جارہا تھا۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حملہ کرنے والوں پر بددعا کردی تو اللہ نے ان کی آنکھوں کی بصارت چھین لی، اور مسلمانوں نے ان پر قبضہ کرلیا، اوروہ قریش کے تیس جوان تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑ دیا۔
عبداللہ بن مغفّل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقامِ حدیبیہ پر اس درخت کے نیچے تھے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے، اور اس درخت کی شاخیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ سے لگ رہی تھیں، اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سہیل بن عمرو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لکھو، یہ وہ عہد نامہ ہے جس کے مطابق محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب نے صلح کی ہے، اور میں اللہ کا رسول ہوں، علی رضی اللہ عنہ نے لکھ لیا، اور ہم ابھی اسی حال میں تھے کہ اچانک قریش کے تیس(30) جوان ہتھیاروں کے ساتھ ہمارے سامنے آگئے، اور ہم پر حملہ کرنا چاہا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر بددعا کردی، اور اللہ نے ان کی بصارت چھین لی، تو ہم نے انہیں قیدکرلیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: کیا تم کسی کے عہد اور ذمہ میں یہاں آئے ہو؟ اور کیا کسی نے تمہیں امان دی ہے ؟ انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑ دیا، اور اللہ نے آیت: { وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ… الخ } نازل فرمائی۔
حملہ آورقریشیوں کی تعداد میں اختلاف کسی راوی کی غلطی ہوسکتی ہے، ان کی صحیح تعداد اسّی(80) تھی، لیکن چونکہ وہ مسلمانوں کے پڑاؤ کی جگہ پر بکھر گئے تھے، اسی لیے جس نے ان کی تعداد تیس(30) بتائی ہے، انہوں نے باقی حملہ آوروں کو نہیں دیکھا تھا، اور غالب گمان یہی ہے کہ یہ کسی راوی کی غلطی ہے۔ واللہ اعلم۔
قیدیوں کا تبادلہ:
جب سہیل نے دیکھا کہ قریشی جوانوں کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدی بن گئی ہے (جو یقینا اللہ کی حکمت ومصلحت تھی تاکہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اوردس مہاجرین کو آزاد کرایا جاسکے) تو اس نے کہا: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! جن جوانوں کو تمہارے ساتھیوں نے قیدی بنالیا ہے، وہ کسی جنگ کا نتیجہ نہیں تھا، اور نہ اُن کی یہ حرکت ہمارے اصحابِ عقل وخرد کی رائے تھی، بلکہ ہم نے اُن کے اس کرتوت کو بُرا جانا ہے، ہمیں اس کی خبر پہلے سے نہیں تھی، ہمارے نادانوں کی حرکت تھی، اس
|