Maktaba Wahhabi

297 - 704
کے بھائی بنیں۔ مہاجرین وانصار کے درمیان قائم کردہ اخوت کی بنیاد پر کئی ایسے خاص حقوق ومصالح مرتب ہوئے تھے جو مسلمانوں کے درمیان عام اخوت وہمدردی پر مرتب نہیں ہوتے۔ صُفّہ اور رشتۂ اخوت: بعض غریب مہاجرین کو مدینہ آنے کے بعد کوئی ایسا کام نہیں ملا جس سے ان کی روزی کا بندوبست ہوتا، اور نہ انہیں کوئی پناہ کی جگہ ملی، اس لیے کہ مہاجرین مسلسل مدینہ آرہے تھے، اور ان میں سے بہت سے لوگ اہلِ مدینہ میں سے کسی کو نہیں جانتے تھے، بہت سے کھیتوں میں کام کرنے کا تجربہ نہیں رکھتے تھے، اور اکثر کے پاس تجارت کے لیے روپے پیسے نہیں تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان غریب مہاجرین کی رہائش کے بارے میں مسلسل سوچتے رہے، چنانچہ ہجرت کے سولہ ماہ بعدجب قبلہ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا، جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الصلاۃ (1/104) میں روایت کی ہے، اور مسجد نبوی کے پچھلے حصے میں قبلۂ اولیٰ کی دیوار باقی رہ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر چھت بنانے کا حکم دیا اور اس کا نام صُفّہ یا ظُلّہ (یعنی سایہ دار جگہ) رکھا، اور اُس کے اِرد گرد کوئی دیوار نہیں بنائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صفّہ میں ان غریب ونادار مہاجرین کو جگہ دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے اسلام اور طاعت وفرمانبرداری کا اعلان کرتے تھے، اسی طرح سے اس میں بعض ان انصار کو بھی جگہ ملی جو زہد وعبادت کی زندگی گزارنا چاہتے تھے، حالانکہ مدینہ میں ان کے مکانات موجود تھے، جیسے کعب بن مالک انصاری، حنظلہ بن ابو عامر انصاری (غسیل الملائکہ یعنی جنہیں فرشتوں نے نہلایا) اور حارثہ بن نعمان انصاری وغیرہ رضی اللہ عنھم اجمعین ، اور ان صحابیوں کی تعداد کم وبیش ہوتی رہتی تھی، وفودکی آمد پر ان کی تعداد بڑھ جاتی، اور جب وہاں سے وہ کوچ کرجاتے تو ان کی تعداد کم ہوجاتی، البتہ وہاں مستقل طور پر قیام کرنے والوں کی تعداد عام طور پر ستر سے اسّی ہوتی تھی۔ [1] یہ حضرات زہد وعبادت کی زندگی میں راغب اور حصولِ علم کے لیے ہمہ وقت فارغ رہتے تھے، قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے، اس کے فہمِ معانی کا درس لیتے تھے، اور احادیثِ نبویہ کو یاد کرتے تھے، اور جب جہاد کا وقت آتا تو اس میں حصہ لیتے۔ ان میں سے بعض بدرواحد میں شہید ہوگئے اور بعض صلحِ حدیبیہ میں شریک ہوئے اور بعض خیبر، تبوک اور یمامہ میں شہید ہوئے۔یہ لوگ رات میں اپنے رب کی عبادت کرتے تھے، اور دن میں گھوڑوں کی پشت پر جہاد کرتے تھے۔ ان کے پاس اتنا کپڑا نہیں ہوتا تھا جوانہیں ٹھنڈک سے بچائے یا پورے طور پر ان کی ستر پوشی کرے، ان کا کھانا عام طور پر کھجور ہوتی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے ہر دو آدمی کو روزانہ ایک مُدّ کھجور دیا کرتے تھے۔ انہوں نے مسلسل کھجور کھانے کے سبب اپنے پیٹ میں جلن کی شکایت کی،لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے اس کے سوا کسی اور کھانے کا بندوبست
Flag Counter