Maktaba Wahhabi

98 - 704
دین سے دور کا بھی واسطہ نہ رہا، بُت پرستی اس کا جُزو بن گئی، اور یہود اُس عقیدۂ توحید سے یکسر دور ہوگئے جو ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کی طرف سے لائے تھے، اور جس کی وصیت انہوں نے اور یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو کی تھی۔ ان حالات سے گزر کر بنی اسرائیل یعنی یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے شدید محتاج تھے، تاکہ وہ دوبارہ ان کا رشتہ اس دینِ توحید سے جوڑدیں جسے لے کر ابراہیم، یعقوب اور موسیٰ علیھم السلام دنیا میں تشریف لائے تھے۔ (2) عیسائیت: یہی حال عیسائیوں کی چاروں انجیلوں کا ہے ، بلکہ ان کا حال تو تورات سے بھی زیادہ بدتر ہے ، اس لیے کہ عیسیٰ علیہ السلام اور اُن انجیلوں کے درمیان جو ایک گہری کھائی موجود ہے، اس کا پاٹنا ہرگز ممکن نہیں۔عیسیٰ علیہ السلام اور ان انجیلوں کی(دو دیگر مؤلفین کے ذریعے) تدوین وتالیف کے درمیان ایک طویل زمانہ گزرا ہے ۔ ان دونوں میں سے ایک مؤلف وہ پولس یہودی تھا جس نے عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا سے اٹھائے جانے کے بعد عیسائیت کو بظاہر قبول کرکے، اس کی تعلیمات کو بدل دیا، اور مسیحیت میں الوہیتِ مسیح، عقیدۂ تثلیث اور ملعونوں اور جہنمیوں کو عیسیٰ مسیح کے نام سے پروانۂ نجات دیئے جانے جیسے باطل عقائد کو داخل کیا۔ نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انجیل عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کی زبان میں نازل ہوئی جو مرورِ زمانہ کے ساتھ اللہ کی مشیت سے ختم ہوگئی۔پھر ایک طویل زمانہ کے بعد اُسے یونانی زبان میں لکھا گیا، جو یقینا عیسیٰ علیہ السلام کی زبان نہیں تھی۔ اس طرح وہ عقیدۂ توحید جس کی طرف عیسیٰ علیہ السلام نے تمام دیگر انبیاء ورسل کی طرح اپنی قوم کو بلایا تھا، گم ہوگیا، اور بُت پرستی اپنی تمام باطل رسوم وعادات اور شرک وصنم پرستی کے ساتھ مسیحیت میں داخل ہوگئی۔ چھٹی صدی عیسوی کا زمانہ جب آیا تو نصاریٰ حقیقتِ مسیح، اور اَرکانِ تثلیث سے متعلق مختلف جماعتوں میں بٹ چکے تھے کہ اَرکانِ تثلیث سے مراد اللہ ، مریم اور مسیح ہیں، یا اللہ، یوحنا اور مسیح ، یااللہ، روح القدس اور مسیح ۔ ان اختلافات نے دینِ مسیحیت کی جڑوں کو اس طرح کھوکھلا کردیا تھا کہ اب یہ دین کسی طرح بھی امورِ دین ودنیا میں انسانیت کی رہنمائی کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا،بلکہ گمراہیوں کا ایک مجموعہ اورگھٹاٹوپ تاریکیوں کا ایک ملغوبہ بن گیا تھا۔اس طرح دنیائے نصرانیت کو بھی نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی شدید ترین ضرورت تھی، تاکہ وہ انہیں ہلاکت وبربادی کی کھائی سے بچاکر دینِ اسلام کی رحمتوں اور برکتوں میں داخل کردیں۔ [1] روم کی مسیحی حکومت: 395ء سے1453 ء تک پھیلے ہوئے طویل زمانے میں مذہبِ مسیحیت کی نمائندگی اس مشرقی رومانی بادشاہت نے کی ہے جس کا دار السلطنت قسطنطینیہ تھا، پھر اس دار السلطنت پر عثمانیوں کا قبضہ ہوگیا، اور اس رومانی حکومت کے ٹکڑے ہوگئے۔ اُن دنوں یونان، بلقان، ایشیائے کوچک، شام، فلسطین، حوضِ بحر ابیض، مصر اور شمالی افریقہ تمام علاقوں پر اسی بادشاہ کی حکومت تھی۔
Flag Counter