Maktaba Wahhabi

604 - 704
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ أَبشِر ‘‘ یعنی خوش ہو جاؤ! میں ضرور پورا کروں گا۔‘‘ دیہاتی نے کہا: آپ بہت بار مجھ سے یہ جملہ کہہ چکے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو موسیٰ (راویٔ حدیث) اور بلال رضی اللہ عنہ کی طرف ناراضی کی حالت میں متوجہ ہوئے اور فرمایا: اِس شخص نے خوشخبری قبول نہیں کی، تو تم دونوں قبول کر لو۔ دونوں نے کہا: ہم نے قبول کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پانی کا ایک پیالہ منگایا، اس میں اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ دھویا، اور اسی میں کُلّی کی۔ پھر آپؐ نے دونوں سے کہا: تم دونوں اس میں سے پیو، اور اپنے چہروں اور گردنوں پر بہاؤ، اور خوشخبری قبول کرو۔ چنانچہ دونوں نے پیالہ لیا اور ویسا ہی کیا۔ [1] تقسیمِ غنائم کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد لوگوں کی بھیڑ لگ گئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر ایک درخت کی ڈالی میں لٹک گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: تم لوگ میری چادر دو۔ اگر میرے پاس ببول کے اِن درختوں کی تعداد کے برابر جانور ہوتے تو ان سب کو تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا (اُس جگہ ببول کے بے شمار درخت تھے) اور تم مجھے بخیل،جھوٹا اور بزدل نہ پاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اونٹ کے کُوہان کا ایک بال لیا اور کہا: اللہ کی قسم! تمہارے اِن اموالِ غنیمت میں سے پانچویں حصے کے سوا اس بال کے برابر بھی میرے لیے نہیں ہے، اور وہ پانچواں حصہ بھی تم پر ہی خرچ ہوگا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیمِ غنائم سے پہلے اس میں سے کچھ لینے کی حرمت کو بیان فرمایا۔ یہ سن کر ایک انصاری بال سے بٹے کچھ دھاگے لے کر آئے، جنہیں انہوں نے تقسیم سے پہلے لے لیا تھا، اور اموالِ غنیمت میں ڈال دیا۔ [2] وفدِ ہوازن: مقامِ جعرانہ میں چودہ اشخاص پر مشتمل ہوازن کا ایک وفد ابو جردل زُہیر بن صُرَد کی قیادت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، انہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی چچا ابو بُرقان بھی تھے، اِن سب نے اپنے اسلام کا اعلان کیا، اور کہا:اے اللہ کے رسول! ہم اہل وعیال اور خاندان والے لوگ ہیں، اور ہم پر جو مصیبت آئی ہے وہ آپ سے مخفی نہیں ہے۔ ہم پر احسان کیجیے اللہ آپ پر احسان کریں گے۔ اس کے بعد اُن کا خطیب زُہیر بن صُرَد کھڑا ہوا اور کہا: باڑوں میں بہت سی قیدی عورتیں آپ کی خالائیں، پھوپھیاں اور آپ کی دایائیں ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت کرتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے پوچھا: تمہاری عورتیں تمہیں زیادہ عزیز ہیں یا مال واَسباب؟ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے ہمیں اختیار دیا ہے، تو ہمارے بچے اور ہماری عورتیں ہمارے نزدیک زیادہ عزیز ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو میرے اور بنی عبدالمطلب کے پاس ہیں وہ تمہارے لیے ہیں۔ اور جب میں لوگوں کے ساتھ نماز سے فارغ ہو جاؤں تو تم لوگ اٹھ کر کہو: ’’ ہم اپنے بچوں اور عورتوں کے لیے اللہ کے رسول کو مسلمانوں کے نزدیک سفارشی بناتے ہیں، اور مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک۔ ‘‘ تب میں تم لوگوں کی مدد کروں گا، اور لوگوں سے تمہارے لیے طلب کروں گا۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھ لی تو ہوازن والے کھڑے ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی
Flag Counter