Maktaba Wahhabi

573 - 704
تھا،اسی لیے انہیں مخاطب کرکے فرمایا:’’اب تم جو چاہو کرو، میں نے تمہیں معاف کردیا۔‘‘ اس کے بعد اللہ عز وجل نے حاطب رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ)) [الممتحنہ:1] ’’ اے ایمان والو! تم لوگ میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ، تم ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہو، حالانکہ وہ دینِ برحق کا انکار کرتے ہیں جو تمہیں ملا ہے، انہوں نے رسول اللہ کو اور تمہیں صرف اس وجہ سے (مکہ سے) نکال دیا ہے کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لے آئے ہو، اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے شہر سے نکلے ہو، تو پھر اُن سے چپکے چپکے دوستی کیوں کرتے ہو، میں تو وہ سب جانتا ہوں جو تم چھپاتے ہو، اور جو ظاہر کرتے ہو، اور تم میں سے جو کوئی ایسا کرتا ہے، وہ(اللہ کی) سیدھی راہ سے بھٹک جاتا ہے۔ ‘‘[1] مسلمانوں کی فوج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں دس ہزار مہاجرین وانصار پر مشتمل سن 8 ہجری دس رمضان المبارک بروز بُدھ مکہ کی طرف روانہ ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اپنا خلیفہ ابو رُہم کلثوم بن الحصین الغفاری رضی اللہ عنہ کو متعین کر دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منادی نے اعلان کر دیا کہ جو روزہ رکھنا چاہے رکھے اور جو افطار کرنا چاہے افطار کرے۔ اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا، اور جب مقام ’’ عُرج‘‘ پر پہنچے تو پیاس کی شدت کم کرنے کے لیے اپنے سر اور چہرہ پر پانی ڈالا، اور جب آپؐ ظہر اور عصر کے مابین عُسفان وقدید کے درمیان ’’الکدید‘‘ نام کے مقام پر پہنچے تو پانی سے بھرا ایک پیالہ اپنے ہاتھ میں لیا جسے تمام مسلمانوں نے دیکھا، پھر روزہ توڑ دیا۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد افطار کیا تھا، اور جب آپؐ کو کچھ لوگوں کے بارے میں خبر ملی کہ انہوں نے روزہ نہیں توڑا ہے، تو فرمایا: وہ لوگ نافرمان ہیں۔ [2] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مَرُّ الظہران میں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے یہاں تک کہ مر الظہران (وادیٔ فاطمہ) پہنچ گئے، اور آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام تھے، آپ کے ساتھ تمام ہی مہاجرین وانصار نکلے تھے، کوئی پیچھے نہیں رہا تھا۔ اور اُن کے ساتھ قبائل سُلیم ومُزینہ اور غطفان اور دیگر قبائل بھی تھے۔ اور یہ ساری خبر قریش سے بالکل مخفی رہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی خبر اُن کو نہیں مل رہی تھی، انہیں پتہ نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ارادہ ہے، اسی لیے قریش والے ہر وقت خوف وہراس میں تھے۔
Flag Counter