ایک بہترین نمونہ ہے، ان کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کا یقین رکھتے ہیں، اور اللہ کو بہت یاد کرتے رہتے ہیں،اورجب مومنوں نے دشمنوں کی فوجوں کو دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ تو وہی چیز ہے جس کا ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے وعدہ کیا تھا،اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا اور اس بات نے تو ان کے ایمان اور طاعت وفرمانبرداری کو اور بڑھا دیا، مومنوں میں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد و پیمان کو سچ کر دکھایا، پس اُن میں سے بعض نے اپنی نذر پوری کر دی، اور بعض وقت کا انتظار کر رہے ہیں، اور ان کے موقف میں ذرا بھی تبدیلی نہیں آئی ہے، یہ سب کچھ اس لیے پیش آیا تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے، اور منافقوں کو چاہے تو عذاب دے، یا چاہے تو ان کی توبہ قبول کر لے، بے شک اللہ بڑا مغفرت کرنے والا، بے حد مہربان ہے، اور اللہ نے کافروں کو غیظ و غضب بھرے دلوں کے ساتھ واپس کر دیا، اپنی کوئی بھی مراد حاصل نہ کر سکے، اور اللہ مومنوں کی طرف سے قتال کے لیے کافی ہو گیا، اور اللہ بڑی قوت والا، زبردست ہے، اور اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان کی تائید کی تھی، اللہ نے انہیں ان کے قلعوں سے نیچے اتار لیا، اور ان کے دلوں میں رُعب ڈال دیا، تم لوگ ان میں سے ایک جماعت کو قتل کرنے لگے، اور دوسری جماعت کو قید کرنے لگے، اور اللہ نے تمہیں ان کی زمین، ان کے مکانات اور ان کے مال کا مالک بنا دیا، اور اس زمین کا بھی جس پر تم نے ابھی قدم نہیں رکھا ہے، اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ ‘‘
بنی غطفان کے ساتھ معاہدۂ صلح کی کوشش:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی بہت زیادہ بڑھ گئی تو آپؐ نے بنی غطفان کے دونوں لیڈروں، عیینہ بن حصن، اور حارث بن عوف کو پیغام بھیجا کہ وہ دونوں مدینہ کے ایک تہائی پھل کے بدلے آپؐ سے معاہدۂ صلح کرلیں، اور اپنی قوم کو لے کر واپس چلے جائیں جب ان دونوں نے اپنی رضا مندی ظاہر کی تو آپؐ نے سعد بن معاذ، سعد بن عبادہ، سعد بن سعود اور سعد بن خیثمہ رضی اللہ عنھم کو بلایا، اور فرمایا: میں جانتا ہوں کہ سارے عرب نے تم اہلِ مدینہ پر بیک وقت حملہ کردیاہے، اور حارث بن عوف غطفانی نے تم سے مدینہ کی ایک تہائی کھجور کے بدلے صلح کرلینی چاہی ہے، اگر تم چاہو تواس سال اس سے یہ معاہدہ کرلو،انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا آپ کو آسمان سے اس بات کی وحی آئی ہے تو پھر ہم اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں، یا یہ آپؐ کی رائے ہے ؟ تاکہ ہم غور کرکے آپ کی رائے کو قبول کرلیں۔ اگر آپ ہماری حفاظت کے لیے ایسا کرنا چاہتے ہیں، تو اللہ کی قسم! آپ نے ہمیں اور ان کو ایک جیسا دیکھا ہے، انہوں نے کبھی بھی ہماری طرف سے ایک کھجور بھی بغیر خریدے یا بغیر میزبانی کے نہیں حاصل کی ہے، تو کیا اب جبکہ اللہ نے ہمیں اسلام کے ذریعہ عزت دی ہے، ہم انہیں اپنے اموال یوں ہی دے دیں، اللہ کی قسم! ہمیں ایسے معاہدۂ صلح کی ضرورت نہیں، اللہ کی قسم! ہمارے پاس ان کے لیے ننگی تلوار کے سوا کچھ بھی نہیں، یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کردے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر ایسا ہی کرو۔
لشکرِ کفار اور بنو قریظہ کے درمیان اختلاف:
ان مشکل حالات میں نعیم بن مسعود اشجعی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بتایا کہ وہ اسی وقت اسلام میں داخل
|