الْكِتَابِ مِن صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا ﴿26﴾ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَّمْ تَطَئُوهَا ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا )) [الأحزاب:9- 27]
’’ اے ایمان والو!تم اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو، جب کافروں کی فوجیں تم پر ٹوٹ پڑیں، تو ہم نے ان پر آندھی، اور ایسے لشکر بھیج دیے جنہیں تم دیکھ نہیں رہے تھے، جب کہ اللہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھ رہا تھا، جب دشمن تم پر چڑھ آئے، تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے، اور جب آنکھیں پتھرا گئیں، اور دل گلے تک پہنچ گئے، اور تم لوگ اللہ کے بارے میں مختلف قسم کے گمان کرنے لگے، اُس موقع سے مومنین بڑی آزمائش میں ڈالے گئے، اور پوری شدت کے ساتھ جھنجھوڑ دیے گئے، اور جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دل بیمار تھے کہنے لگے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جھوٹا وعدہ کیا تھا، اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا کہ اے یثرب کے رہنے والو! یہ جگہ تمہارے ٹھہرنے کی نہیں ہے، تم لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، اور ان کا ایک گروہ نبی سے اجازت مانگتا تھا، کہتے تھے کہ ہمارے گھر غیرمحفوظ ہیں، حالانکہ وہ غیرمحفوظ نہیں تھے، وہ تو بس بھاگنا چاہتے تھے، اور اگر اُن کے دشمن مدینہ کے چاروں طرف سے گھس آتے، پھر ان منافقوں سے مسلمانوں کے خلاف فتنہ میں شریک ہونے کو کہا جاتا تو اُس میں کود پڑتے، اور اس بارے میں بہت کم توقف کرتے،حالانکہ اس سے قبل انہوں نے اللہ سے عہد و پیمان کیا تھا کہ وہ پیٹھ پھیر کر نہیں بھاگیں گے، اور اللہ سے کیے گئے عہد کے بارے میں ان سے سوال ہوگا،اے میرے نبی!آپ کہہ دیجیے کہ اگر تم موت یا قتل کے ڈر سے راہِ فرار اختیار کروگے تو یہ فرار تمہیں بچا نہیں لے گا، اور تب تمہیں دنیاوی زندگی سے لطف اندوز ہونے کا بہت ہی کم موقع دیا جائے گا،آپ کہہ دیجیے کہ اگر اللہ تمہیں تکلیف پہنچانا چاہے تو کون بچا لے گا، یا تمہیں اپنی رحمت سے نوازنا چاہے تو کون روک دے گا، اور لوگ اللہ کے سوا اپنا نہ کوئی یار پائیں گے اور نہ مددگار، اللہ تمہارے درمیان ان لوگوں سے خوب واقف ہے جو لوگوں کو شرکتِ جہاد سے روکتے ہیں، اور جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ تم لوگ ہمارے پاس آجاؤ، اور جنگ میں برائے نام حصہ لیتے ہیں،یہ لوگ تم مسلمانوں کا ساتھ دینے میں بڑے بخیل ہیں، اور جب دشمنوں کا خوف لاحق ہوتا ہے تو آپ ان کا مشاہدہ کرتے ہیں، وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں کہ اُن کی آنکھیں گھوم رہی ہوتی ہیں، اس آدمی کی طرح جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو، پھر جب خطرہ ٹل جاتا ہے تو مالِ غنیمت کے بڑے ہی حریص بن کر اپنی تیز زبانوں کا تمہیں نشانہ بناتے ہیں۔ یہ لوگ ایمان لائے ہی نہیں تھے، اسی لیے اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دیے، اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بڑا آسان تھا،یہ لوگ یہی سمجھ رہے ہیں کہ دشمن کی فوجیں اب تک واپس نہیں گئی ہیں، اور اگر وہ فوجیں دوبارہ مُڑ کر آجائیں تو ان کی خواہش ہوگی کہ وہ بادیہ میں چلے جائیں اور وہاں سے تمہارے احوال معلوم کرتے رہیں، اور اگر یہ لوگ تمہارے درمیان ہوتے تو برائے نام ہی جنگ میں شریک ہوتے، فی الحقیقت تم مسلمانوں کے لیے رسول اللہ کا قول و عمل
|