Maktaba Wahhabi

731 - 704
بھیجا، اور اُن کا سردار عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عَتیک کو بنایا، یہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہنچاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کی مدد کرتا تھا۔ اور سر زمینِ حجاز میں اپنے ایک قلعہ میں رہتا تھا۔ صحابہ جب اس کے قریب پہنچے تو آفتاب غروب ہو رہا تھا، اور لوگ اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم لوگ یہیں انتظار کرو، اور میں جاکر دربان سے نرمی کے ساتھ بات کرتا ہوں۔ ممکن ہے داخل ہونے دے۔ عبداللہ دروازہ کے اندر داخل ہوگئے، اور ابو رافع کو قتل کرکے جب واپس آرہے تھے تو اُن کا پاؤں پھسل گیا اور پنڈلی ٹوٹ گئی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا: اپنا پاؤں پھیلاؤ اور آپؐ نے اس پر اپنا ہاتھ پھیر دیا۔ اور آناً فاناً ایسا ہوگیا جیسے کبھی اس میں کوئی تکلیف ہوئی ہی نہیں تھی۔ [1] 21۔ باغی گروہ نے قتل کر دیا: امام بخاری ومسلم نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت ہم لوگ ایک ایک اینٹ اٹھاتے اور عمار رضی اللہ عنہ دو دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کودیکھا تو اُن کے بدن کا غبار جھاڑنے لگے اور کہنے لگے: ہائے عمار! اِسے ایک باغی گروہ قتل کر دے گا، یہ اُنہیں جنت کی طرف بلائے گا، اور وہ گروہ اِسے آگ کی طرف۔ عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اللہ کے ذریعہ فتنوں سے پناہ مانگتا ہوں۔ [2] چنانچہ عمار رضی اللہ عنہ نے سن 37 ہجری میں صِفیّن میں علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا، اور قتل کر دیے گئے۔ 22۔ سیّدنا حسن رضی اللہ عنھما دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائیں گے: صحیح بخاری اور دیگرِ کتبِ حدیث میں ابو بکر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنھما کے بارے میں فرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہے، اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا۔ [3] چنانچہ ویسا ہی ہوا جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً تیس (30) سال بعد اللہ تعالیٰ نے سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ذریعہ میدانِ صِفّین میںدو بڑی متحارب فوجوں (علی اور معاویہ رضی اللہ عنھما کی فوجوں) کے درمیان صلح کرائی۔ یہ واقعہ ماہِ صفر سن 37 ہجری کا ہے۔ اِس جنگ میں علی رضی اللہ عنہ کی فوج کے تقریباً پچیس ہزار اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج کے پینتالیس ہزار آدمی مارے گئے، اور یہ جنگ ایک سو دس دن جاری رہی تھی۔ 23۔ اونٹ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں: صحیح احادیث وآثار سے ثابت ہے کہ جن، انسان اور جانور تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے متأثر ہوئے۔ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار ایک انصاری کے باغ میں داخل ہوئے۔ وہاں ایک اونٹ بندھا ہوا تھا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر سِسکی لینے لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور اس کے سر اور گردن پر ہاتھ پھیرا تو وہ چپ ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ اونٹ کس کا ہے؟ تو ایک نوجوان انصاری نے کہا: یہ اونٹ میرا ہے اے اللہ کے رسول!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا تم اس جانور کے سلسلہ میں اللہ سے نہیں ڈرتے
Flag Counter