Maktaba Wahhabi

287 - 704
شمع کو فروزاں کیا۔ [1] ہجرتِ نبوی سے قبل یثرب کی حالت: یہ بات پہلے لکھی جاچکی ہے کہ یثرب کا نام ’’مدینۃ الرسول ‘‘رکھ دیا گیا، اور یہ شہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اُن اصحابِ کرام کے لیے مسکن وموطن بن گیاجو مکہ اور اس کے مضافات سے ہجرت کرکے یہاں جمع ہوگئے تھے، تاکہ اسلام اور دعوتِ اسلامیہ کے لیے مخلص فوجی کی حیثیت سے کام کریں ، اور اس مرکزِ اسلام سے اسلام کی دعوت لے کر سارے عالم میں پھیل جائیں ۔ اور زیرِ بحث موضوع کی تکمیل کا تقاضا ہے کہ میں اُس مدنی سوسائٹی پر بھی کچھ روشنی ڈالتا چلوں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے آکر رہائش پذیر ہوگئے تھے ، اور دیکھوں کہ وہ کو ن لوگ تھے جواس شہر کے پُرانے مکین تھے، ان کی اصل اور فصل کیا تھی ، اور اُن کے عادات واطوار کیسے تھے ؟ تاکہ ہم اس بنیادی انقلاب کی گہرائی اور گیرائی کو سمجھ سکیں جو اسلام کے ذریعے وہاں رونما ہوا تھا، اوروہ کون سی رکاوٹیں تھیں جو قرآن وسنت پر مبنی صحیح عقیدہ اور سچی اخوت ومحبت کی بنیاد پر ایک جدید اسلامی سوسائٹی کی تعمیر کی راہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آئی تھیں : شہرِ یثرب کا علاقہ قدیم زمانہ سے سرسبز وشاداب، ہرا بھرا، زرخیز اور وافر مقدار میں پانی والا علاقہ تھا، اور چاروں طرف سے حروں (جلے ہوئے پہاڑوں) سے گھرا ہوا تھا اور اس میں یہود اور اوس وخزرج کے دونوں قبیلے آباد تھے۔ غالب گمان کے مطابق کہا جاتا ہے کہ یہود پہلی اور دوسری صدی عیسوی میں شام سے ہجرت کرکے یہاں آگئے تھے ، جب پہلی صدی قبل مسیح میں سوریا (شام)اور مصر پر اور دوسری صدی عیسوی میں یہودیوں اورنبطیوں کی حکومتوں پر رومانیوں کا قبضہ ہوگیا تھا۔ سب سے پہلے یہی یہود یثرب اور حجاز کے علاقے میں آئے؛ بنونضیر اور بنو قریظہ کے یہود یہاں آکر سب سے زرخیز علاقوں میں رہائش پذیر ہوگئے، جو شام کی طرف جانے والے تجارتی قافلوں کے راستے کے قریب تھے، اس لیے تجارتی حیثیت سے بھی وہ علاقہ اہم تھا۔ دیگر یہودی قبائل جو ہجرتِ نبوی سے پہلے اس علاقے میں رہائش پذیر تھے وہ بنوقینقاع کے یہودی تھے، جن کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ اصل میں عرب تھے ، جنہوں نے یہودی مذہب کو قبول کرلیا تھا، اور انہی یہودی قبائل میں سے بنو عکرمہ، بنو محمر، بنو زعورا ، بنو شطیبہ،بنو جشم، بنوبہدل،بنو عوف،بنو معاویہ، بنومرید، بنو القصیص اور بنوثعلبہ کے لوگ تھے۔ [2] یہ یہود لباس ،زبان اور تہذیب میں عربوں کے رنگ میں رنگ گئے، اور ان کے اورعربوں کے درمیان شادی بیاہ کے تعلقات پیدا ہوگئے ، لیکن ان سب کے باوجود انہوں نے اپنی عبرانی اصل کے لیے عصبیت کو ہمیشہ اپنے دل ودماغ میں زندہ رکھا، اور کبھی بھی کلی طور پر عربوں کے ساتھ نہیں ملے، یہ لوگ عربوں کو حقیر جانتے تھے اور انہیں اُمی کہتے تھے ، یعنی وحشی، بے وقوف، رذیل اور پسماندہ لوگ ، اور ہمیشہ اوس وخزرج اور یثرب کے پڑوس میں رہنے والے دیگر قبائل کے درمیان دشمنی
Flag Counter