غزوه مؤتہ
وجہِ تسمیہ:
معروف جنگی اصطلاحات کے مطابق یہ بھی ایک بڑا سریّہ تھا، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں شرکت نہیں کی تھی، لیکن اسلامی جنگوں کی تاریخ میں چونکہ اس کی بڑی اہمیت ہے، اور صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی، اور غزوئہ خندق کے بعد اس سریّہ کی فوج بڑی فوج تھی، اس لیے اسے غزوہ کہا جاتا ہے۔
مقام:
’’مؤتہ‘‘ مشرقی اُردن میں ایک بستی ہے، جو کرک کے جنوب میں گیارہ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ اور آج کل یہ بستی رہنے والوں سے خوب آباد ہے۔ اس کے قریب ہی ’’مزار‘‘ نام کی ایک بستی ہے جہاں اس غزوہ میں شہید ہونے والوں کی قبریں ہیں۔ یہ حضرات زید بن حارثہ، جعفر بن ابو طالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہم تھے۔
تاریخ واَسباب:
یہ غزوہ ماہِ جمادی الاولیٰ سن 8 ہجری میں ہوا تھا، اور سبب یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن عمیر اَزدی رضی اللہ عنہ کو ایک خط دے کر بُصریٰ کے بادشاہ کے پاس بھیجا۔ جب وہ مؤتہ بستی کے پاس پہنچے تو قیصرِ روم کے مقامِ بلقاء کے حاکم شرحبیل بن عمرو غسّانی نے راستہ روک کر پوچھا کہ تم کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا: شام۔ اس نے پھر پوچھا کہ شاید تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے قاصدوں میں سے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایلچی ہوں۔ یہ سنتے ہی اس نے ان کو باندھ کر اس کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا، اور اُن کی گردن مار دی۔ اِن کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قاصد اب تک مارا نہیں گیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑا ہی شاق گزرا، صحابہ کرام کو جمع ہونے کا حکم دیا، اور رومیوں سے جنگ کرنے کے لیے تین ہزار صحابہ پر مشتمل ایک فوج تشکیل دی۔ [1]اور اِس فوج کا امیر زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بنایا، اور فرمایا: اگر زید شہید ہو جائے، تو قیادت جعفر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں چلی جائے گی، اور اگر جعفر بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ قائد جیش ہوں گے۔ [2] جب فوج کی روانگی کا وقت آیا تو لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امراء کو الوداع کہا، انہیں سلام کیا۔ عبداللہ بن رواحہ رونے لگے، تو لوگوں نے سبب دریافت کیا، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! نہ میں دنیا کی محبت میں رویا ہوں، نہ ہی تم لوگوں سے تعلقِ خاطر کے سبب۔ بلکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ایک آیت سنی ہے جس میں جہنم کی آگ کا بیان ہے
|