Maktaba Wahhabi

223 - 704
وہ لوگ جب سونے کے لیے اپنے بستروں پر چلے جاتے تو ابوطالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر سوجانے کا حکم دیتے، تاکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر دیکھ لیں، پھر جب لوگ سوجاتے تو ابوطالب اپنے کسی بیٹے یا بھائی یا چچا زاد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سلادیتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی اور بستر پر سونے کا حکم دیتے۔ گھاٹی کے پیچھے سے بھوکے بچوں کی آوازیں سُنائی دیتی تھیں ،جس سے بعض قریشی خوش ہوتے تھے اور بعض کو تکلیف ہوتی تھی، کوئی بھی چیز ان تک خفیہ ہی پہنچتی تھی۔ مطعم بن عدی کسی کسی دن ان کے لیے کھانے کی بہت سی چیزیں خفیہ طور پر پہنچاتے تھے جس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے شکرگزار تھے۔ شام سے تجارتی قافلہ آتا جس میں حکیم بن حزام بن خویلد کے گیہوں سے لدے بہت سے اونٹ ہوتے، جنہیں وہ گھاٹی کی طرف ہانک دیتے، پھر انہیں چابک سے مارتے تاکہ وہ گھاٹی میں داخل ہوجائیں ، پھر گھاٹی والے وہ گیہوں لے لیتے۔ اور ہشام بن عمرو بن ربیعہ قریشیوں میں سب سے زیادہ بنوہاشم سے صلہ رحمی کرنے والا تھا، چنانچہ جب یہ لوگ گھاٹی میں گھیر دیے گئے تو اِس نے ایک رات میں کھانے کی تین بڑی بوریاں ان کے پاس بھیج دی، قریش کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس سے اس بارے میں پوچھا: ہشام نے کہا کہ میں اب دوبارہ ایسا نہیں کروں گا، لیکن اس نے پھر دوبارہ ایک یا دو بوری بھیج دی ، جس کے سبب قریش نے اس پر بہت زیادہ سختی کی اور اسے مارنا چاہا۔ابو سفیان بن حرب نے کہا: تم لوگ اسے چھوڑدو، اس نے ایسا صلہ رحمی کے جذبے سے کیا ہے، میں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اگر ہم نے بھی ایسا کیا ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ عہد نامۂ نامسعودکا خاتمہ: جب پورے تین سال گزر گئے اور حالت نہیں بدلی ، بلکہ بد سے بدتر ہوتی چلی گئی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور ان کا ساتھ دینے والے کافروں کے لیے آسانی وکشادگی کا فیصلہ کیا، اور ماہِ محرم10 نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے صحیفے کے بارے میں بذریعہ وحی اطلاع دی گئی کہ دیمک نے اس میں موجود قطع رحمی، ظلم وجور اور بے وفائی سے متعلق تمام عبارتوں کو چاٹ لیا ہے، اور اس میں اللہ کے نام کے سوا کچھ بھی باقی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر اپنے چچا ابوطالب کو دی، تو انہوں نے کہا: اے میرے بھتیجے! کیا واقعی ایسا ہی ہوا ہے جیسا تم مجھے بتا رہے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ، اللہ کی قسم، تو ابوطالب نے یہ بات اپنے بھائیوں کو بتائی اور کہا: محمدؐ نے مجھ سے کبھی بھی کوئی جھوٹ بات نہیں کہی۔ تو ان سب نے ابوطالب سے کہا: پھر آپ کا کیا خیال ہے ؟ انہو ں نے کہا: میرا خیال یہ ہے کہ تم سب اپنے اپنے اچھے کپڑے پہن کر قریش کے پاس چلو، اور انہیں یہ بات بتاؤ، قبل اس کے کہ یہ خبر ان کو کسی اور ذریعہ سے ملے، چنانچہ وہ سب گھاٹی سے نکل کر مسجدِ حرام پہنچے، اور حِجر میں بیٹھ گئے ۔ قریشیوں نے کہا: بھوک کی وجہ سے یہ سب نکل کر یہاں آگئے ہیں ، اورجب ان کے پاس آئے، تو ابوطالب نے کہا: ہم ایک اہم بات کے لیے یہاں آئے ہیں ۔ تم لوگ اس بارے میں اپنی رائے سے ہمیں مطلع کرو۔ قریشیوں نے کہا: ہم آپ لوگوں کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ ابوطالب نے کہا: میرے بھتیجے نے مجھے خبر دی ہے- اور وہ کبھی مجھ سے جھوٹ نہیں بولتا ہے- کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے عہد نامے پر دیمک کو مسلط کردیا ہے جو اس میں موجود ظلم وجور اور قطع رحمی سے متعلق تمام عبارتوں کو چاٹ گیا ہے ، اور اس میں صرف اللہ کی یاد رہ گئی ہے۔ اگر میرا بھتیجا سچا ہے تو تمہیں اپنے
Flag Counter