آکر مل گئے ہیں۔
مسلمانوں کو جب یہ خبر ہوئی تو وہ مقامِ معان پر دو رات ٹھہرے رہے، اور حالات پر سر جوڑ کر غور کرتے رہے، لوگوں نے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھ کر حالات سے آگاہ کرنا چاہیے اور دشمنوں کی بڑی تعداد کی خبر دینی چاہیے، تاکہ یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مدد کے لیے مزید فوج بھیجیں گے، یا ہمیں جیسا حکم دیں گے ویسا کریں گے۔ لیکن عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے مجاہدین کی ہمت بڑھاتے ہوئے کہا: لوگو! تم جس چیز کو ناپسند کر رہے ہو، وہ تو وہی ہے جس کی خاطر تم نکلے ہو یعنی اللہ کی راہ میں شہادت۔ اور ہم مسلمان اَسبابِ جنگ اور قوت وکثرت کے بل بوتے پر مشرکوں سے جنگ نہیں کرتے ہیں، بلکہ ہم اپنی طاقت تو اُس دین سے حاصل کرتے ہیں جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عزت بخشی ہے۔ اس لیے ہمیں پیش قدمی کرنی چاہیے اس امید کے ساتھ کہ ہمیں دو نعمتوں میں سے ایک ضرور ملے گی، یا تو ہم غالب ہوں گے یا شہید ہو جائیں گے۔ لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم! ابن رواحہ ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں۔
جنگ شروع ہوتی ہے:
اور بالآخر مقامِ مؤتہ پر جو جزیرئہ عرب کے شمالی علاقہ میں واقع ہے، اور جو شمالی افریقہ اور ایشیائے کوچک اور یورپ کے لیے اسلام کا بوّابہ ومدخل ہے، جنگ شروع ہو جاتی ہے، مومنوں اور حق پرستوں (جو اسلام کی بالادستی کے لیے اپنی جانیں اپنی ہتھیلیوں پر لیے پھرتے تھے) اور باطل وطاغوت کی فوج کے درمیان جن کی تعداد دو لاکھ تھی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے وجود وبقا کی جنگ تھی۔
مسلمانوں کے قائد زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اسلامی فوج کے میمنہ (دائیں حصّہ) کا قائد قُطبہ بن قتادہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا جو بنی عذرہ کا ایک فرد تھا، اور میسرہ (بائیں حصّہ) کا کمانڈر عبادہ بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا۔
واقدی نے اپنی سند کے ذریعہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں غزوئہ مؤتہ میں شریک تھا، جب ہم نے مشرکوں کو دیکھا تو اُن کے پاس اتنے سارے اسباب و اسلحہ اور دیباج وحریر اور سونے کی چیزیں دیکھیں کہ میری آنکھیں چکا چوند ہوگئیں۔ ثابت بن اَقرم رضی اللہ عنہ نے میری حالت دیکھ کر مجھ سے کہا: اے ابو ہریرہ! کیا بات ہے، کیا آپ دشمنوں کی بڑی تعداد سے گھبرا گئے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ میرے ساتھ غزوئہ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے، ہم کثرت کے ذریعہ فتحیاب نہیں ہوئے تھے۔ [1]
اور ابن اسحاق نے اپنی سند کے ذریعہ عروہ سے روایت کی ہے کہ مسلمانوں نے زبردست جنگ کی، یہاں تک کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے، پھر جھنڈا جعفر رضی اللہ عنہ نے لے لیا، اور قتال کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوگئے۔ [2] اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس جنگ میں شریک تھا۔ ہم نے جب جعفر بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کو تلاش کیا تو وہ ہمیں مقتولین میں ملے، اور ان کے جسم پر نیزوں اور تیروں کے نوّے سے زیادہ زخم ملے۔ [3]
|