ابن اسحاق نے بنی مُرّہ بن عوف کے ایک آدمی سے روایت کی ہے کہ ایسا لگتا ہے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو مؤتہ کے دن ابھی بھی دیکھ رہا ہوں، جب انہوں نے اپنے گھوڑے کا کوچ کاٹ کر اسے چھوڑ دیا، پھر آگے بڑھ کر قتال کرتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ ابن اسحاق لکھتے ہیں: وہ پہلے مسلمان گھوڑ سوار تھے جنہوں نے اپنے گھوڑے کا کوچ کاٹ کر جنگ کی، اور عربی کے دو اشعار پڑھے جس کا مفہوم یہ تھا کہ ’’جنت کی قربت کتنی اچھی بات ہے، اور اس کا پانی کتنا ٹھنڈا اور میٹھا ہے، اور رومیوں کو اُن کی بدبختی میرے قریب لائی ہے، جب میں اُن کے قریب ہو کر اُن پر حملے کروں گا۔‘‘
جعفر رضی اللہ عنہ جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ اُن کا دایاں ہاتھ کٹ گیا، تو انہوں نے بائیں ہاتھ سے جھنڈا پکڑ لیا اور جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا، تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کے باقی ماندہ حصے سے جھنڈا سنبھال لیا، اور اسے بلند رکھا یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ اُس وقت اُن کی عمر تینتیس سال تھی۔ اور اپنے دونوں بازوؤں کے بدلے جنت میں دو پروں کے ذریعہ اُڑنے لگے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عامر سے روایت کی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جب جعفر رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے مخاطب ہوتے تو کہتے: اے دو پروں والے جنتی کے بیٹے، السلام علیکم۔ [1] اور حاکم نے مستدرک اور طبرانی نے معجم کبیر میں ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے جعفر کو جنت میں ایک فرشتہ کی شکل میں دیکھا ہے۔ ان کے پاؤں خون میں آلودہ تھے اور وہ جنت میں اُڑ رہے تھے۔ [2]
جعفر رضی اللہ عنہ کے شہید ہو جانے کے بعد جھنڈا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے سنبھال لیا، اور گھوڑے پر سوار آگے بڑھے، اور اپنے آپ کو قتال کے لیے آمادہ کرنے لگے اور کہنے لگے: اے میری جان! یا تو تو میدانِ کارزار میں برضا اُترے گی یا پھر اس پر میں تجھے مجبور کر دوں گا۔ جب لوگ ہر چہار طرف سے جمع ہوگئے ہیں اور جنگ کی چیخ پکار شروع ہوگئی ہے تو پھر تو جنت سے کیوں اعراض کر رہی ہے۔ تو بہت دن اطمینان سے رہ چکی، اور تو پانی کے ایک پُرانے تھیلے میں ایک قطرہ کے سوا کیا ہے۔ نیز کہا: اے میری جان! اگر تو قتل نہیں کی جائے گی تو بھی ایک دن ضرور مرے گی، اور اب تو وہ گھڑی آ پہنچی ہے جس کی تو تمنا کرتی تھی، اور اگر تو بھی اپنے سابق دونوں شہیدوں کے نقش قدم پر چلے گی تو ہدایت پا جائے گی۔
پھر میدان میں اُتر گئے، تو اُن کے ایک چچا زاد اُن کے لیے ہڈی کا ایک ٹکڑا لے کر آئے اور انہیں پیش کیا اور کہا: آپ ذرا اسے کھا لیجیے، آج آپ نے سارا دن اپنی جان جوکھم میں ڈال رکھی تھی۔ انہوں نے اس ہڈی کو لے کر جوں ہی ایک بار گوشت نوچا، انہوں نے ایک طرف لوگوں کا اژدحام دیکھا۔ اپنی جان سے مخاطب ہو کر کہا: تو اب تک دنیا میں ہے، پھر ہڈی کو پھینک کر تلوار سے جنگ کرنے لگے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ [3]
|