عثمان رضی اللہ عنھما بھی آگے بڑھے اور سب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! اُس دن کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہماتی امور میں میرے برابر کسی دوسرے صحابی کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ [1]
سَرِیّہ شجاع بن وہب اَسدی رضی اللہ عنہ بنی عامر کی طرف:
سن 8 ہجری ماہِ ربیع الأول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شجاع بن وہب رضی اللہ عنہ کو چوبیس مجاہدین صحابہ کے ساتھ ہوازن کی ایک جماعت بنی عامر پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ لوگ مدینہ سے پانچ رات کی مسافت پر مقامِ رکبہ کی جہت میں ’’سِی‘‘ نامی جگہ میں رہتے تھے، اور مسلمانوں کو نقصان اور اذیت پہنچاتے تھے۔
شجاع رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکلے، رات کو چلتے اور دن کے وقت چُھپ جاتے، یہاں تک کہ صبح کے وقت اُن کے پاس پہنچے جبکہ وہ مجاہدین کی آمد سے بالکل غافل تھے، اور اُن پر حملہ کر دیا، اور اُن کے بہت سارے اونٹوں اور بکریوں پر قبضہ کر لیا، اور انہیں ہانک کر مدینہ لے آئے جنہیں بطور مالِ غنیمت مجاہدین نے آپس میں تقسیم کر لیا۔ یہ لوگ مدینہ سے پندرہ دن تک باہر رہے تھے۔ [2]
سریّہ کعب بن عمیر انصاری رضی اللہ عنہ ذات اَطلاح کی طرف:
سن 8ہجری میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن عمیر غفاری رضی اللہ عنہ کو پندرہ مجاہدین کے ساتھ شام کے علاقہ میں ’’ذاتِ اَطلاح‘‘ نامی مقام کی طرف روانہ کیا، جو وادیٔ قُریٰ کے بعد واقع ہے، یہ لوگ جب وہاں پہنچے تو دشمنوں کے ایک آدمی نے اُن کو دیکھ لیا، اور فوراً اپنی قوم کے پاس جاکر ان کو مجاہدین کی آمد کی اطلاع دی اور ان کو بتایا کہ اُن کی تعداد تھوڑی ہے، جب مسلمان اُن کے قریب پہنچے تو اُن کو اسلام کی دعوت دی لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا بلکہ برسرِ پیکار ہوگئے اور زبردست جنگ کرنے لگے، چنانچہ سب کے سب مسلمان شہید ہوگئے صرف ان کے امیر کعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کسی طرح نجات پاگئے اور مدینہ واپس آنے میں کامیاب ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس اندوہناک خبر سے بڑی تکلیف ہوئی اور ان سے بدلہ لینے کے لیے ایک دوسری جماعت کو بھیجناچاہا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ وہ سب اپنی جگہ سے بھاگ گئے، اس لیے ان کی سرکوبی کا ارادہ ملتوی کر دیا۔[3]
****
|