ابوجہل کا سر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین بار دہرائی اور میں نے ہر بار کہا: ہاں، اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ساری تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں، جس نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا، اور اپنے بندے کی مدد کی، اوردشمن کے گروہوں کو اکیلے شکست دی، پھر فرمایا: یہ شخص اس امت کا فرعون تھا۔ [1]
امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں میدانِ بدر میں صف میں کھڑا اپنے دائیں اور بائیں دیکھنے لگا تو اپنے آپ کو دو کمسن انصاری لڑکوں کے درمیان پایا، میرے دل میں تمنا ہوئی کہ کاش !میں ان دونوں سے زیادہ طاقتور لوگوں کے درمیان ہوتا، ان میں سے ایک نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرکے پوچھا: کیا آپ ابو جہل کو پہچانتے ہیں ؟ میں نے کہا: ہاں، لیکن بھتیجے تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس نے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے، اور اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میرا جسم اس کے جسم سے الگ نہیں ہوگا، یہاں تک کہ ہم دونوں میں سے کوئی ایک مرجائے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا، پھر دوسرے لڑکے نے مجھے متوجہ کیا اور اسی جیسی بات اس نے بھی کی۔
عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کچھ ہی دیر کے بعد ابو جہل کو لوگوں کے درمیان آتے جاتے دیکھا، تو میں نے کہا: کیا تم دونوں دیکھ نہیں رہے ہو؟ یہی تو ہے وہ ابو جہل جس کے بارے میں تم مجھ سے پوچھ رہے تھے۔ پھر وہ دونوں اس پر جھپٹ پڑے اور اپنی تلواروں سے اس پر کاری ضرب لگائی یہاں تک کہ اسے قتل کردیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم دونوں میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟ ہر ایک نے کہا: میں نے اسے قتل کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم دونوں نے اپنی تلواروں سے خون کو صاف کردیا ہے ؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ تو آپ نے دونوں کی تلواروں کو دیکھ کر فرمایا: تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے، او رپھر ابو جہل سے چھینے گئے سامان کا فیصلہ معاذ بن عمرو بن الجموح رضی اللہ عنہ کے لیے کیا، اور وہ دونوں معاذ بن عمرو بن الجموح اور معوذ بن عفراءرضی اللہ عنہماتھے۔ [2]
کفر کا سرغنہ اُمیّہ بن خلف:
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: امیہ بن خلف مکہ میں میرا دوست تھا، میرا نام عبد عمرو تھا، بدر کے دن میں اس کے پاس سے گزرا، اس وقت وہ اپنے بیٹے علی کے ساتھ اس کا ہاتھ پکڑے کھڑا تھا، اور میرے پاس کچھ زرہیں تھیں جنہیں میں نے کافروں سے چھینا تھا، جب اس نے مجھے دیکھا تو کہا: اے عبد عمرو! کیا تم مجھ سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو؟ میں ان زرہوں سے تمہارے لیے زیادہ بہتر ہوں، میں نے کہا: ہاں، اور میں نے اپنے ہاتھ سے زرہیں پھینک دیں، اور اس کا اور اس کے بیٹے کا ہاتھ پکڑ لیا، اس وقت وہ کہہ رہا تھا: میں نے اپنی زندگی میں آج تک ایسا دن نہیں دیکھا، کیا تمہیں فدیہ نہیں چاہیے؟
عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: امیّہ نے مجھ سے کہا: تم میں وہ کون سا آدمی ہے جس کے سینے پر شتر مرغ کے پر کا نشان ہے ؟
|