معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت نرم خو اور نرم مزاج تھے، سختی اور سخت گیری آپؐ کے مزاج کو چھوکر بھی نہیں گئی تھی۔
رحمت ورأفت:
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتِ رحمت ورأفت کی تعریف میں فرمایا ہے:
((عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ)) [التوبہ:128]
’’ اُن پر وہ بات شاق گزرتی ہے جس سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے،تمہاری ہدایت کے بڑے خواہشمند ہیں، مومنوں کے لیے نہایت شفیق و مہربان ہیں۔ ‘‘
نیز فرمایا ہے:
((وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ)) [الأنبیائ:107]
’’ اور ہم نے آپ کو سارے جہان والوں کے لیے سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیر خواہی اور ہمدردی میں کمال کو پہنچے ہوئے تھے، اور رحمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی صفت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ اگر حالتِ نماز میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو نماز ہلکی کر دیتے تاکہ اُس کی ماں اس کا خیال کرے۔ [1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری ساری رات مسلمانوں کے لیے دعا کرتے تھے، بچوں سے بہت محبت کرتے اور انہیں سلام کرتے تھے۔ اُن کے سروں پر ہاتھ پھیرتے تھے، انہیں اپنی سواری پر بٹھاتے تھے، زمین پر بیٹھ کر اُن کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، آپؐ کو ہر اُس بات سے تکلیف پہنچتی تھی جو مسلمانوں اور کافروں کے لیے تکلیف دہ ہوتی تھی۔ میدانِ بدر میں جب مشرکین قید کیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات اپنے بستر پر کروٹ بدلتے رہے، اس لیے کہ آپؐ اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ کے کراہنے کی آواز سُن رہے تھے۔ ایک انصاری نے جاکر ان کے بندھن کھول دیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راحت مل گئی اور سوگئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قیدیوں کو آزاد کر دینے کا حکم دے دیا۔
معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ رحم دل تھے، حتی کہ اپنے دشمنوں کے لیے بھی رحم دل تھے۔ یہ بات تو تاریخی طور پر بہت ہی معروف ومشہور ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ طائف کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے گئے تو وہاں کے لوگوں نے آپؐ کو پتھروں سے مارا اور آپؐ کے دونوں قدموں کو زخمی کر دیا، اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا کہ اگر آپ چاہیں تو اللہ انہیں پہاڑوں کے درمیان دبا کر مار ڈالے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ اِن کی نسلوں میں ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے۔ [2]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ہی صحابہ کرام کو نصیحت کی کہ وہ سب کے لیے رحیم بن کر دنیا میں رہیں۔ قرآن کریم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی صفت یوں آئی ہے:
|