Maktaba Wahhabi

625 - 704
مہارتِ جنگ اور میدانِ معرکہ میں اُن کے صبر وثبات کی باتیں کر رہے تھے۔ ایک نے کہا: تم لوگ اِن کے ساتھ جنگ وقتال کو دوسروں کے جنگ وقتال کی طرح نہ سمجھو۔ اللہ کی قسم! ہم تو تم لوگوں کو کل رسّیوں میں بندھے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ وہ اس طرح کی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے دلوں میں رُعب ودہشت پیدا کرنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ وَدیعہ بن ثابت نے کہا: کیا بات ہے کہ ہم قارئینِ قرآن کو سب سے بڑے پیٹ والے، سب سے زیادہ جھوٹے اور میدانِ کارزار میں سب سے بزدل پاتے ہیں: اور جُلاّس بن سوید نے کہا: یہ ہیں ہمارے سردار، ہمارے اشراف اور ہم میں زیادہ فضل ومرتبہ والے۔ اللہ کی قسم! اگر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سچا ہے تو ہم گدھوں سے بھی زیادہ بُرے ہیں۔ واللہ کاش ہم میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگتے اور ہماری ان باتوں کے بارے میں کوئی قرآن نہ نازل ہوتا۔ جُلاّس تو اِس کے بعد تائب ہوگیا اور اس کا کردار اس کے بعد اچھا ہوگیا۔ ودیعہ اور اس کے دیگر ساتھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معذرت کے لیے آئے۔ اُس وقت ودیعہ اونٹنی پر سوار تھا، اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی مُہار پکڑ لی، جب کہ اُس کے دونوں پاؤں پتھر سے رگڑ کھا رہے تھے، وہ کہہ رہا تھا: یا رسول اللہ! ہم تو یونہی مذاق کررہے تھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ نہیں ہو رہے تھے۔ اُس وقت اللہ عزّ وجلّ نے اُس کے بارے میں مندرجہ ذیل دو آیتیں نازل کیں: ((وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿65﴾ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ)) [التوبہ:65-66] ’’ اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم تو یونہی گپ شپ کرتے تھے اور دل بہلاتے تھے، آپ کہیے کہ کیاتم لوگ اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کا مذاق اُڑاتے تھے۔ اب (جھوٹی) معذرت نہ پیش کرو، تم لوگ ایمان لانے کے بعد دوبارہ کافر ہوگئے ہو، اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو (ان کے تائب ہوجانے کے بعد) معاف کر دیں گے، تو دوسرے گروہ کو، اس لیے کہ وہ مجرمین تھے، ضرور سزا دیں گے۔ ‘‘ [1] اِن میں سے مخشی بھی جُلاّس کی طرح تائب ہوگیا، اور اس کے کردار و عمل میں سُدھار آگیا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام عبدالرحمن یا عبداللہ رکھ دیا، اور جنگِ یمامہ میں شہید ہوا۔ عبداللہ ذو البجادین رضی اللہ عنہ کی وفات: ابن اسحاق نے محمد بن ابراہیم تیمی کے حوالے سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ: میں تبوک میں آدھی رات کو بیدار ہوا تو فوجی پڑاؤ کے ایک کنارے روشنی نظر آئی، اُسے دیکھنے کے لیے آگے بڑھا تو دیکھا کہ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ابو بکر وعمر رضی اللہ عنھما ایک میّت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے، تم دونوں اپنے بھائی کو مجھ سے قریب کرو۔ دونوں حضرات نے اُن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب کر دیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں لٹانا چاہا تو فرمایا:
Flag Counter