Maktaba Wahhabi

62 - 704
کی مانند ہوچکی ہوتی ہیں۔ تم انہیں کھلاؤ، پلاؤ۔ چنانچہ قریش کے سب لوگ حُجاج کی میزبانی کرتے تھے، حتی کہ ہر گھر والے کے پاس جو کچھ ہوتا تھا، اپنی استطاعت کے مطابق بھیج دیتا تھا، اور ہاشم تو ہر سال اپنا بہت سارا مال خرچ کرتا تھا، اور کہتا تھا کہ لوگو، اگر میرا مال اس کام کے لیے کافی ہوتا تو میں تمہیں زحمت نہ دیتا۔ ان کرم نوازخصائل کے سبب تمام عرب کے نزدیک عبد مناف اور اس کے بیٹوں کا بڑا مقام تھا۔ سب ان کے فضل وکرم کا اعتراف کرتے، اُن کی بڑی قدردانی کرتے، اور انہیں تقدیس وتعظیم بھری نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مقصود یہ ہے کہ ہاشم اپنے اعلیٰ کردار کی وجہ سے اپنے باپ کی وفات کے بعد اپنی قوم کا سردار بن گیا تھا، لیکن اُس کے بھائی عبدشمس نے اس کی سرداری کا اعتراف نہیں کیا، اور اپنے لیے سرداری کا دعویٰ کر بیٹھا۔ بالآخر دونوں نے ایک کاہن کو فیصل مانا جس نے ہاشم کے حق میں فیصلہ دیا، اور اس طرح ہاشم کی سرداری برقرار رہی۔ لیکن اُمیّہ (عبد شمس) کے دل میں اپنے بھائی ہاشم کے خلاف چُھپی عداوت سُلگتی رہی، اور بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان منتقل ہوتی رہی، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے، اور بنو ہاشم اور بنو امیہ کے لوگوں نے اسلام کو قبول کیا، تب یہ عداوت ایمان واسلام کی برکت سے سچی ایمانی اخوت میں بدل گئی، اور سب اللہ کے فضل وکرم سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض کے دلوں میں دینی جذبہ سرد پڑنے لگا، تو چُھپی ہوئی عداوتیں اور کُدورتیں پھر اُبھرنے لگیں، اور بنو امّیہ اور بنو عباس کے درمیان 133ھ تک باقی رہیں۔ مدینہ میں ہاشم کی شادی اُمّ عبد المطلب سے: ہاشم پہلا آدمی تھا جس نے قریش کے فائدہ کے لیے موسمِ سرما اور موسمِ گرما میں الگ الگ دو تجارتی اسفار کی بنیاد رکھی۔ چنانچہ ہاشم موسم گرما میں شام کا تجارتی سفر کرتا، نوفل عراق جاتا، مطلب یمن کے لیے روانہ ہوتا، اور عبد شمس حبشہ جاتا۔ ہاشم اپنے ایک تجارتی سفر میں شام جاتے ہوئے مدینہ سے گزرا، اور عمرو بن زید بن لبید خزرجی نجّاری کا مہمان بنا، عمرو اپنی قوم کا سردار تھا، اس کی بیٹی سلمٰی ہاشم کے دل میں اُتر گئی، ہاشم نے اس کے باپ کو اس سے شادی کا پیغام دیا، اس نے قبول کر لیا، اور ہاشم کی سلمٰی سے شادی ہوگئی، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ سلمٰی اپنے باپ کے گھر میں ہی رہے گی۔ ہاشم کچھ دن اپنی بیوی کے پاس رہا، پھر شام کے لیے روانہ ہوگیا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ہاشم اسی سفر میں فلسطین کے مقام غزّہ میں وفات پا گیا۔ سلمٰی امید سے ہوگئی تھی اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا، تو اُس نے اس کا نام ’’شیبہ‘‘ رکھا۔ شیبہ اپنے مامووں کے پاس بنی عدی بن نجار میں سات سال تک رہا۔ جب وہ سنِّ بلوغت کو پہنچنے والا تھا، تو اس کے چچا مطلب کو اس کے بہت ہونہار ہونے کا علم ہوا، اس نے یثرب پہنچ کر اس کی ماں اور اس کے مامووں سے اسے طلب کیا، اور اسے لے کر مکہ آیا جہاں اس کے باپ کی سرداری تھی۔ مطلب مکہ پہنچا تو ’’شیبہ‘‘اس کی اونٹنی پر اس کے پیچھے سوار تھا۔ اہل مکہ کہنے لگے: یہ عبد المطلب ہے، یعنی مطلب کا غلام ہے، مطلب نے کہا، اللہ تم سب کا بھلا کرے، یہ تو میرے بھائی ہاشم کا بیٹا ’’شیبہ‘‘ ہے،لیکن شیبہ پر وہی نام غالب آگیا جس
Flag Counter