ابو رافع سلام بن ابی الحقیق کا قتل:
ابو رافع سلاّم بن ابی الحقیق رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا دشمن تھا، اور ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قبائلِ عرب کو جنگ کے لیے آمادہ کیا تھا، اسی شخص نے غطفان اور دیگر مشرکینِ عرب سے مل کر انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ پر اُبھارا تھا، اور انہیں بہت بڑا لالچ دیا تھا۔
قبیلۂ اوس کے انصار نے جنگ اُحد سے پہلے کعب بن اشرف کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی دشمنی اور لوگوں کو آپ کے خلاف اُبھارنے کے سبب قتل کردیا تھا۔ اس لیے انصارِ خزرج نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سلاّم بن ابی الحقیق کو قتل کردینے کی اجازت مانگی، جو خیبر میں رہتا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت دے دی، اور اس کے لیے عبداللہ بن عُتیک بن قیس بن اسود، عبداللہ بن انیس، سعود بن سنان الاسود، اسعد بن حرام، ابوقتادہ ابن ربعی اور اسود خزاعی رضی اللہ عنھم کو بھیجا، اور ان کا امیر عبداللہ بن عُتیک رضی اللہ عنہ کو بنادیا۔
ابن اسحاق کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کرم بھی کیا تھا کہ اوس وخزرج کے انصار ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیرخواہی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتے تھے، ان دونوں قبیلوں میں سے کوئی اگر کچھ کرتا تو دوسرا بھی ویسا ہی کرتا، اسی لیے جب قبیلۂ اوس والوں نے کعب بن اشرف کوقتل کردیا تو خزرج والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دوسرے بڑے دشمن کو تلاش کیا، لوگوں نے خیبر میں رہنے والے ابن ابی الحقیق کا نام بتایا، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے قتل کردینے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔ [1]
امام بخاری رحمہ اللہ نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کے لیے چند انصار کو بھیجا اور ان کا امیر عبداللہ بن عُتیک رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا، ابو رافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاتا تھا، اور آپ کے دشمنوں کی مدد کرتاتھا، وہ خیبر میں اپنے ایک قلعہ میں رہتا تھا، جب یہ صحابہ کرام اس کے قریب پہنچے تو آفتاب غروب ہوچکا تھا، اور لوگ اپنے گھروں میں چلے گئے تھے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم لوگ اسی جگہ بیٹھو، میں آگے بڑھ کر دربان سے نرمی کے ساتھ کہتا ہوں، شاید کہ وہ دروازہ کھول دے۔
عبداللہ رضی اللہ عنہ دروازہ کے قریب ہوئے تو اپنا کپڑا اپنے چہرہ پر اس طرح ڈال لیا کہ جیسے قضائے حاجت کررہے ہیں، لوگ اندر داخل ہوگئے، تب دربان نے پکارا اے اللہ کے بندے! اگر تم داخل ہونا چاہتے ہو تو داخل ہوجاؤ، میں دروازہ بند کرنا چاہتا ہوں۔ میں داخل ہوکر گھات لگا کر بیٹھ گیا، جب لوگ داخل ہوگئے تو دربان نے دروازہ بند کرلیا، اور چابیاں ایک لکڑی پر لٹکادیں، میں نے وہ چابیاں لے لیں، اور دروازہ کھول دیا، اس وقت ابورافع کے پاس محفلِ سرود وغنا منعقد تھی، جب لوگ اس کے پاس سے چلے گئے تو میں اس کے پاس پہنچنے کے لیے سیڑھی چڑھنے لگا اور جب میں ایک دروازہ کھولتا تو اسے اندر سے بند کردیتا۔ میں نے دل میں سوچا کہ اگرلوگوں کو میرا پتہ چل بھی گیا تب بھی ان کے میرے پاس پہنچنے سے پہلے میں اسے قتل کردوں گا۔ میں اس کے پاس پہنچ گیا، وہ ایک تاریک کمرہ میں اپنے بچوں کے بیچ میں تھا، پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں ہے؟
|