ہیں، سوائے امّ سعد کے۔ [1]
سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما نے روایت کی ہے کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور پوچھا: یہ کون اللہ تعالیٰ کا نیک بندہ ہے، جس کے مرنے کے بعد اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے ہیں، اور اللہ کا عرش ہلنے لگا ہے؟ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکل کر دیکھا تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ وفات پاچکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دفن کے وقت ان کی قبر کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبار سبحان اللہ کہا تو صحابہ رضی اللہ عنھم نے بھی سبحان اللہ کہا۔ پھر آپؐ نے اللہ اکبر کہا تو صحابہ نے بھی تکبیر کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ کے اس نیک بندے کی حالت پر تعجب ہوا کہ پہلے ان کی قبر ان پر تنگ ہوئی پھر کشادہ کردی گئی۔ [2]
اور معاذ بن رفاعہ بن رافع زرقی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ مجھے میری قوم کے کچھ لوگوں نے بتایا کہ جبریل علیہ السلام آدھی رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس استبرق کا عمامہ باندھے آئے اور پوچھا: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! یہ کون وفات پا گیا ہے جس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے ہیں، اور اللہ کا عرش ہلنے لگا ہے؟ یہ سنتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ان کی روح پرواز کرچکی تھی۔ [3]
محمد بن لبید رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ تشریف لائے جہاں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا علاج ہورہا تھا، تو آپ سے کہا گیا کہ انہیں بنوعبدالأشہل میں لے جایا جائے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ ہم سب تیز رفتاری کے ساتھ چلنے لگے، یہاں تک کہ ہمارے جوتوں کے تسمے ٹوٹ گئے اور ہماری چادریں گرگئیں۔ اور صحابہ کرام نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ڈر ہوا کہ کہیں فرشتے ہم سے سبقت نہ لے جائیں اور سعد کو غسل کرادیں جیسا کہ فرشتوں نے حنظلہ کو غسل کرایا تھا، جب آپؐ ان کے گھر پہنچے توانہیں غسل دیا جارہا تھا، اوران کی ماں رو رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر رونے والی عورت جھوٹی ہے سوائے امّ سعد کے۔ پھر آپؐ ان کا جنازہ لے کر نکلے تو صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے کبھی بھی ان کے جنازہ سے ہلکا اپنے کندھوں پر نہیں ڈھویا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس میں تعجب کی کیا بات ہے، تمہارے ساتھ مل کر ان کا جنازہ اُٹھانے کے لیے اتنے اور اتنے فرشتے آسمان سے اُترے ہیں، جو آج سے پہلے کبھی نہیں اُترے تھے۔ [4]
اورعبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سعد رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو وہ جان کنی کی حالت میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے قوم کے سردار! اللہ تعالیٰ تمہیں بہترین بدلہ عطا فرمائے، تم نے اللہ سے جو وعدہ کیا اسے پورا کیا، اور یقینا اللہ بھی تم سے کیے گئے وعدے پورے کرے گا۔ [5]
|