پھر ایسا ہوا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کنکریاں اٹھائیں، اور اُن سے کافروں کے چہروں کو نشانہ بنایا، اور فرمایا: ربِّ محمد کی قسم! شکست کھا کر بھاگو۔ عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! آپ نے جونہی کنکریاں اُن کی طرف پھینکیں، اُن کا کرّوفرّمات پڑگیا، اور پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔ ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خچر سے اتر کر ایک مٹھی مٹی لی اور اسے کافروں کے چہروں کی طرف اُچھال دیا اور کہا: یہ چہرے پامال ہوں، یہ کہتے ہی دشمنوں میں سے ہر ایک کی دونوں آنکھیں مٹی سے بھر گئیں، اور سب پیٹھ پھیر کر بھاگ پڑے۔ [1]
حاکم نے مستدرک میں بسندِ صحیح انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جنگِ حُنین کے دن اہلِ مکہ اور اہلِ مدینہ جمع ہوئے، اور جنگ نے شدت اختیار کی تو سب بھاگنے لگے۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارِ مدینہ کو آواز دی اور کہا: اے مسلمانو! میں اللہ کا رسول ہوں۔ انصار نے کہا: اللہ کی قسم!ہم آپ کے پاس آگئے، پھر انہوں نے اپنے سر جھکا کر جوجنگ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں مسلمانوں کو فتح ونصرت عطا کی۔ [2]
معرکہ میں ہوازن کے آگے ایک بھاری بھرکم آدمی سرخ اونٹ پر سوار تھا، اس کے ہاتھ میں ایک کالا جھنڈا تھا، جب اپنے دشمن پر قابو پالیتا تو اسے بھونک دیتا، ورنہ اپنے پیچھے والوں کے لیے اسے اٹھائے رکھتا۔ علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری اس کی تاک میں لگ گئے۔ علی رضی اللہ عنہ نے اس کے اونٹ کے کوچ پر ضرب لگائی، وہ آدمی چوتڑ کے بل گِر پڑا، اور انصاری نے اس کی پنڈلی پر ضرب لگائی، اور اس کا قدم نصف پنڈلی سے الگ ہوگیا، اور وہ گرگیا۔ [3]
مشرکوں کی شکست فاش:
دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی، بالآخر مشرکین شکست کھا کر بھاگے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خچر پر سوار اُن کا پیچھا کیا، اور اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں میں رُعب ڈال دیا۔ ابو السائب رضی اللہ عنہ اِس موقف پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ یزید بن عامر سِسوائی مشرکوں کی طرف سے معرکۂ حنین میں شریک ہوئے تھے، پھر اسلام لے آئے۔ ہم نے اُن سے اس خوف ودہشت سے متعلق دریافت کیا جو اللہ نے معرکۂ حنین میں اُن کے دلوں میں ڈال دیا تھا، تو انہوں نے ایک کنکری طشت میں پھینکی جس سے ’’ٹن‘‘ کی آواز نکلی۔ انہوں نے کہا: ہم لوگ مارے دہشت کے اپنے پیٹ میں ایسی ہی آواز سنتے تھے۔ [4]
اس کے بعد مشرکین ایسا بھاگے کہ وہ مُڑ کر دیکھتے ہی نہ تھے، اور ہر طرف بکھر گئے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا کہ اُن میں سے جو لوگ بھی قابو میں آجائیں انہیں قتل کر دیا جائے۔ بزّار نے سندِ صحیح کے ساتھ روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
|