Maktaba Wahhabi

480 - 704
اللہ کی قسم! جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا، تو اسلام لانے سے مجھے اس ڈر کے سوا کسی چیز نے نہیں روکا کہ کہیں تم لوگ یہ گمان نہ کرنے لگو کہ میں نے تمہارے اموال کو ہڑپ جانا چاہا تھا، اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مال تمہیں واپس کردیے ہیں اور میں فارغ ہوگیا ہوں تو اپنے اسلام کا اعلان کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہ سے کہا تھا جب انہوں نے اپنے شوہر کو پناہ دی تھی: اے بیٹی! ان کا خیال کرو، لیکن یہ تمہارے ساتھ خلوت نہ اختیار کرے، اس لیے کہ تم اس کے لیے حلال نہیں ہو، ابو العاص رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوکر مدینہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سال اور کچھ دنوں کے بعد نکاح اول کے بموجب ہی ان کی بیوی ان کے حوالے کردی۔ [1] زید بن ہارون نے عمرو بن شعیب سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو العاص رضی اللہ عنہ کو اپنی بیٹی مہرِ جدید اور نکاحِ جدید کے بعد لوٹائی لیکن یہ حدیث سند اور متن دونوں ہی اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ [2] سریّہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (الطرف) : جمادی الثانیہ سن 6 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو پندرہ مجاہدین کے ساتھ مقامِ ’’طرف‘‘ کی طرف بھیجا جو مدینہ منورہ سے چھتیس میل کی دوری پر ایک کنویں کے نام سے مشہور تھا، اور انہیں بنو ثعلبہ پر حملہ کرنے کا حکم دیا، جنہوں نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کو قتل کردیا تھا، اور اُن دنوں مقامِ ’’طرف‘‘ میں رہائش پذیر تھے۔ دشمنانِ اسلام نے جب مجاہدین کو دیکھا تو فوراً بھاگ پڑے اور یہ سمجھا کہ یہ دستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی فوج کا پیش خیمہ ہے، اور بھاگتے ہوئے اپنے بیس اونٹ چھوڑ گئے جنہیں مجاہدینِ مدینہ منورہ ہانک کر لے آئے، اور کوئی جنگ نہیں ہوئی، یہ فوجی دستہ مدینہ سے چار دن باہر رہا۔ سریّہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (الحِسمی) : جمادی الثانیہ سن 6 ہجری میں ہی دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ قیصر شاہِ روم کے پاس سے واپس آرہے تھے، ان کو قیصر نے بہت سارا مال اور کپڑے دیے تھے، جب مقام حِسمی پر پہنچے تو قبیلۂ جذام کے کچھ لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور ان کا سب کچھ چھین لیا، دحیہ خالی ہاتھ مدینہ منورہ واپس آئے اور اپنے گھر جانے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ہرقل کی مجلس میں جو کچھ ہوا تھا، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کیا، پھر قبیلۂ جذام والوں نے ان کے ساتھ جو بُرا برتاؤ کیا، اس کی تفصیل بتائی۔ انہی دنوں رفاعہ بن زید جذامی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے، اور مدینہ میں ہی قیام پذیر تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط لکھ کر انہیں ان کی قوم کے پاس روانہ کیا اور بالخصوص ان لوگوں کو مخاطب کیا جو مسلمان ہوچکے تھے، اور لکھا کہ اُن میں سے جو مسلمان ہوگئے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول کی جماعت میں داخل ہوگئے، اور جو مرتد ہوگیا ہے انہیں دوماہ کا امان دیا جاتا ہے، اس خط کو سننے کے بعد رفاعہ رضی اللہ عنہ کی قوم نے فوراً اپنے اسلام کا اعلان کردیا، اور اُس جگہ پہنچے جہاں دحیہ رضی اللہ عنہ کا مال واسباب لُٹ گیا تھا، لیکن قبیلۂ جُذام کے لوگ وہاں سے منتشر ہوچکے تھے۔
Flag Counter