کیوں لائے ہو؟ اس نے کہا: میں نے چاہا کہ ہر شخص کے پیچھے اس کے اہل واموال رہیں تاکہ اُن کی طرف سے دفاع میں جنگ کرے۔ یہ سن کر دُرید اُس پر ٹوٹ پڑا اور کہنے لگا: اے بکری کے چرواہے! کیا کسی شکست خوردہ کو کوئی چیز روک سکتی ہے؟ اگر میدان تمہارے ہاتھ رہا تو لوگوں کی تلواریں اور اُن کے نیزے ہی تمہارے کام آئیں گے۔ اور اگر شکست کا منہ دیکھنا پڑا تو تمہیں اپنے اہل وعیال اور مال واسباب کے سلسلہ میں ذلت ورسوائی اٹھانی پڑے گی۔ اس لیے مال واسباب اور عورتوں اور بچوں کو مامون ومحفوظ جگہ پر پہنچا دو۔
دُرید نے پھر پوچھا: کعب وکلاب کی کیا خبر ہے؟ لوگوں نے کہا: اُن میں سے کوئی بھی یہاں نہیں آیا ہے۔ دُرید نے کہا: خوش قسمتی اور بہادری دونوں ہی موجود نہیں ہے۔ اگر رفعت وبلندی کا دن ہوتا تو کعب و کلاب کے لوگ ضرور آتے۔ کاش !تم لوگ بھی کعب وکلاب کی طرح نہ آتے۔ اُس نے پوچھا: پھر کون لوگ آئے ہیں؟ لوگوں نے اسے بتایا: عمرو بن عامر اور عوف بن عامر۔ اُس نے کہا:یہ دونوں کمزور قبیلے ہیں، یہ لوگ نہ نقصان پہنچائیں گے نہ ہی نفع۔
یہ تمام باتیں سن کر مالک نے بُرا سا منہ بنا لیا، اور کہا: تم بوڑھے ہوگئے ہو اور تمہارا علم بھی بوسیدہ ہوگیا ہے۔ پھرہوازن والوں سے گویا ہوا: اے اہلِ ہوازن! اگر تم میری اطاعت نہیں کرو گے تو میں اس تلوار پر اپنا وزن ڈال دوں گا یہاں تک کہ وہ میری پیٹھ سے نکل جائے۔ انہوں نے یہ سن کر کہا: ہم تمہاری بات مانیں گے۔ مالک نے لوگوں سے کہا: جب تم لوگ مسلمانوں کو دیکھو تو اپنی تلواروں کے نیام توڑ ڈالو اور یک بارگی اُن پر حملہ کر دو۔ [1]
مالک نے اپنے جاسوسوں کو مسلمانوں کی خبر لانے کے لیے بھیجا، وہ آئے تو کانپ رہے تھے۔ مالک نے پوچھا: تمہارا بُرا ہو، کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا: ہم نے سفید پوشوں کو چیتے رنگ کے گھوڑوں پر دیکھا ہے۔ اُن کو دیکھ کر ہماری یہ حالت ہوگئی ہے۔ یہ سب سننے کے باوجود مالک اپنے فیصلۂ جنگ پر قائم رہا۔ [2]
عبداللہ بن اَبی حدرد رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اَخبار رساں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اُن کے قریب ہوئے تو اُن کے پاس عبداللہ بن حدرد اسلمی رضی اللہ عنہ کو یہ سکھا کر بھیجا کہ تم اُن کے درمیان گھس جاؤ، تاکہ اُن کی صحیح خبریں جان سکو۔ چنانچہ وہ اُن کے درمیان گھس گئے، اور وہاں ایک یا دو دن رہے، پھر واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ انہوں نے مسلمانوں سے جنگ کرنے کی ٹھان لی ہے، نیز مالک اور ہوازن والوں سے متعلق تمام تفصیلات بتائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالآخر اُن کی طرف پیش قدمی کا فیصلہ کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ صفوان بن امیّہ کے پاس ڈھالیں اور دیگر اَسلحہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس آدمی بھیج کر اس سے سو ڈھالیں مانگیں تو اس نے کہا: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! کیا آپ زبردستی لیناچاہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بطور عاریت اور باضمانت چاہیے یہاں تک کہ
|