Maktaba Wahhabi

378 - 704
ابن اُبی کے کردار کا منفی اثر: ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے لکھا ہے کہ عبداللہ بن اُبی کا مقصد مجاہدین کی صفوں میں انتشار پھیلانا تھا، اور یقینا یہ حادثۂ فاجعہ ایسا بارِ گراں تھا جس سے مسلمان فوج کی کمر ٹوٹنے لگی، اور ان کی صفوں میں غیر شعوری طور پر انتشار پھیلنا شروع ہوگیا، اور مخلص مسلمانوں کی دو جماعتوں نے پسپا ہونا چاہا، وہ خزرج کے بنو سلمہ اور اوس کے بنو حارثہ کے لوگ تھے، نیز اوس کے بنو النبیت بھی۔ اِن لوگوں نے جب عبداللہ بن اُبی اور اس کے منافق ساتھیوں کو واپس جاتے دیکھا تو ان کی صفوں میں انتشار پھیل گیا، اور پسپا ہوکر مدینہ لوٹ جانا چاہا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ثبات بخشا اور لوٹنے کا ارادہ ترک کردیا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پاکباز صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ساتھ میدانِ جنگ میں ثابت قدم رہے، انہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ((إِذْ هَمَّت طَّائِفَتَانِ مِنكُمْ أَن تَفْشَلَا وَاللَّـهُ وَلِيُّهُمَا ۗ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ)) [آلِ عمران: 122] ’’ جب تم میں سے دو گروہوں نے پسپائی کا ارادہ کیا،اور اللہ ان کا دوست ہے، اور مومنوں کو صرف اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں جماعتوں کے لیے خیر کی گواہی دی، اور خبر دی کہ اللہ اُن کا دوست ہے، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے۔((إِذْ هَمَّت طَّائِفَتَانِ مِنكُمْ أَن تَفْشَلَا)) [آلِ عمران: 122] ’’ جب تم میں سے دو گروہوں نے پسپائی کا ارادہ کیا۔ ‘‘ یعنی بنی سلمہ اور بنی حارثہ کے بارے میں۔ اور ہم اس بات کو پسند نہیں کرتے ہیں کہ یہ آیت نازل نہ ہوئی ہوتی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں کہا ہے: ((وَاللَّـهُ وَلِيُّهُمَا)) [آلِ عمران: 122]… ’’ اور اللہ ان کا دوست ہے۔ ‘‘[1] اسلامی فوج کی پیش قدمی: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھ لی، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے کہا: کون ہے وہ شخص جو ہمیں کسی ایسے قریب کے راستے سے آگے لے چلے جو دشمن کے پاس سے نہ گزرتا ہو؟ ابوخیثمہ نے کہا: میں یا رسول اللہ ! پھر وہ آپ کو لے کر حرۂ بنی حارثہ اور ان کے باغات کے درمیان سے گزر کر آگے بڑھے، یہاں تک کہ مربع بن قیظی کے باغ سے گزرے، جو ایک اندھا منافق آدمی تھا، جب اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی آمد کا احساس ہوا تو ان کے چہروں پر مٹی پھینکتے ہوئے کہنے لگا: اگر تم اللہ کے رسول ہو تو میں تمہارے لیے اس بات کو حلال نہیں کرتا ہوں کہ میرے باغ سے گزرو۔ ابن اسحاق کہتے ہیں: مجھے بتایا گیا ہے کہ اس اندھے منافق نے ایک مٹھی مٹی لے کر کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اللہ کی قسم، اگر میں جانتا کہ میں تمہارے سوا دوسروں کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا،تو میں یہ تمہارے چہرے پر پھینکتا۔ یہ سن کر صحابہ کرام تیزی کے ساتھ اس کی طرف بڑھے تاکہ اسے قتل کردیں، تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے قتل مت کرو، یہ اندھا دل کا اندھا ہے، اور آنکھ کا بھی اندھا ہے۔ اور سعید بن زید رضی اللہ عنہ تو اس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے سے پہلے تیزی کے ساتھ بڑھے
Flag Counter