سے دشمن کی فوج بالکل قریب تھی، آپ انہیں دیکھ رہے تھے، اور وہ لوگ آپ کو، یہاں پہنچ کر عبداللہ بن اُبی منافق تقریباً ایک تہائی فوجیوں کے ساتھ پسپا ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا؛ تم میری مخالفت کرتے ہو، اورمیرے سوا دوسروں کی بات سنتے ہو، اور کہا: ہم کیوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالیں، اور اُس کی دلیل صرف یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی رائے کے بجائے دوسروں کی بات مانی۔
ابن اُبی کا مقصد مسلمانوں کی فوج میں افراتفری پیدا کرنا تھا، اور جب اللہ کا یہ دشمن اپنے لوگوں کے ساتھ واپس ہونے لگا تو ان کے پیچھے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے باپ عبداللہ بن عمرو بن حرام اسلمی رضی اللہ عنہ گئے اور اس مشکل گھڑی میں ان کی ذمہ داری کا انہیں احساس دلایا، اور انہیں ملامت کرنے لگے، اور لوٹ کر مسلمانوں کی فوج میں مل جانے کی ترغیب دلانے لگے اور کہنے لگے: آؤ، اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یا پھر دور ہوجاؤ، تو منافقوں نے کہا کہ اگر ہمیں علم ہوتا کہ تم لوگ جنگ کروگے تو ہم نہیں لوٹتے۔ عبداللہ بن حرام رضی اللہ عنہ ان کی بات سن کر یہ کہتے ہوئے لوٹ آئے کہ اے اللہ کے دشمنو! اللہ تمہیں اور دور کردے، اللہ اپنے نبی کو تم سے ضرور بے نیاز کردے گا۔
ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یہی لوگ مراد ہیں اللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل قول میں:
((وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ ﴿167﴾ الَّذِينَ قَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا ۗ قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ))
[آلِ عمران: 167، 168]
’’ اور تاکہ نفاق کرنے والوں کو جان لے، اور اُن سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو، یا(دشمنوں کو) ہٹاؤ، تو کہنے لگے، اگر ہم جانتے کہ لڑائی ہوگی تو تمہارے پیچھے چلتے، وہ لوگ اُس دن ایمان کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے، اپنے منہ سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو اُن کے دلوں میں نہیں ہوتیں، اوروہ جو کچھ چھپاتے ہیں اللہ انہیں زیادہ جانتا ہے، انہی لوگوں نے اپنے بھائیوں سے کہا اور بیٹھ گئے کہ اگر ہماری بات مانتے تو قتل نہ کیے جاتے، آپ کہہ دیجیے کہ اگر تم سچے ہو تو پھر موت کو اپنے آپ سے ٹال دو۔ ‘‘ [1]
عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں کے اسلامی فوج سے نکل جانے کی وجہ سے مسلمانوں کو دو بڑے عظیم فائدے پہنچے۔ پہلا فائدہ یہ کہ مسلمانوں کی فوج منافقوں سے پاک ہوگئی، اور اُس میں کوئی ایسا آدمی باقی نہیں رہا جو انہیں ذہنی طور پر پریشان کرتا، یا مسلمانوں کی نفسیات پر منفی اثر ڈالتا۔ دوسرا فائدہ یہ کہ مسلمانوں کو تقریباً تمام منافقین کا علم ہوگیا، تاکہ آئندہ ان کی طرف سے محتاط رہیں، اس لیے کہ اس حادثے کے بعد ایک ایک منافق کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی۔
|