غزوۂ بدر الکبریٰ [1]
غزوۂ بدر کی وجہ تسمیہ :
یہ معرکہ ’’ بئر بدر‘‘ کے پاس واقع ہوا، جو مکہ اورمدینہ کے درمیان ہے، اس کنویں کو بنی غفار کے ایک آدمی بدر بن قریش نے کھودا تھا، اسی لیے اس نام سے مشہور ہوگیا، بلکہ وہ جگہ بھی اسی نام سے مشہور ہوگئی، اور ایمان اور کفر کے درمیان یہ فیصلہ کن جنگ بھی اسی نام سے مشہور ہوگئی۔یہ جگہ مدینہ سے ایک سو ساٹھ کلو میٹر دورہے۔
جغرافیائی حالت:
یہ ریتیلی نرم زمین ہے، اس وادی میں پانی کی ایک نہر بہتی ہے جو مشرق سے مغرب کی طرف جاتی ہے، یہی نہر کہیں کہیں کٹ کر بہت سے کنوؤں کی شکل اختیار کیے ہوئی ہے، جنہیں مسافر لوگ اپنی ضرورت کے مطابق پتھروں سے گھیر کر حوض کی شکل دیتے رہے ہیں۔
اس غزوہ کی اہمیت:
1- یہی وہ غزوہ ہے جس میں مسلمانوں کو حقیقی فتح ونصرت حاصل ہوئی، اور جس میں بہت کم مسلمان مارے گئے، اور انہیں کوئی رعب وخوف لاحق نہیں ہوا، برخلاف غزوۂ خندق کے۔
2- اسی غزوہ کے ذریعہ دعوتِ اسلامیہ کے انجام کا اس کی نئی جگہ (مدینہ منورہ) میں صحیح تعیّن وتقرر ہوا اور یہی معرکہ درحقیقت تاریخ ِدعوتِ اسلامیہ کے دو ادوار کے درمیان حد فاصل ہے، یعنی آزمائش وصبر اور قوت وحرکت کے درمیان، اور اسی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حق وباطل کے درمیان واضح تفریق پیدا کردی۔
3- اس معرکہ کی اہمیت کا علم اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس دن قبلہ رُخ ہوکر اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلاکر- جب جنگ جاری تھی - اپنے اللہ سے مناجات کرتے ہوئے کہا: اے میرے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے آج پورا کردِکھا، اے میرے اللہ! تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ مجھے آج عطا کر، اے میرے اللہ ! اگر تونے اہلِ اسلام کی اس جماعت کو ہلاک کردیا تو پھر زمین میں تیری عبادت نہیں ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل اپنے رب سے نہایت گریہ وزاری کے ساتھ دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر آپ کے کندھے سے نیچے گر گئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر ڈال دی، پھر آپ کے پیچھے چپک گئے اور کہا: اے اللہ کے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ نے اپنے رب سے بہت مانگ لیا، وہ یقینا آپ سے کیے گئے وعدے کو پورا کرے گا، تو اللہ عزوجل نے فرمایا:
|