Maktaba Wahhabi

342 - 704
میں نے کہا: وہ سیّدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ہیں، اس نے کہا: اسی نے ہمارا یہ حال کیاہے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم ! میں ان دونوں کو کھینچے لیے آرہا تھاکہ بلال رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھ لیا۔ امیہ مکہ میں انہیں سخت عذاب دیتا تھا، تاکہ وہ اسلام چھوڑ دیں، انہیں وہ مکہ کے ریتیلے علاقے میں لے جاتا جب ریت تیز گرم ہوتی تو انہیں پیٹھ کے بل ڈال دیتا، پھر ایک بھاری چٹان ان کے سینے پر رکھ دی جاتی اور کہتا: تم اسی حال میں رہوگے، حتی کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دین چھوڑ دو، بلال رضی اللہ عنہ کہتے: اَحد، اَحد۔ اس لیے بلال رضی اللہ عنہ نے جب اسے دیکھا تو کہنے لگے: اے کفر کے سرغنہ! امیہ بن خلف، اگر تم نجات پاگئے تو میری نجات نہیں، عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے کہا: اے بلال! کیا تم میرے دونوں قیدیوں کو ایسی بات کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا: اگر وہ نجات پاگیا تو میں نجات نہیں پاؤں گا، میں نے کہا: اے کالی لونڈی کے بیٹے! کیا تم میری بات سن رہے ہو؟ انہوں نے کہا: اگر یہ نجات پاگیا تو میں نجات نہیں پاؤں گا، پھر اپنی اونچی آواز سے پکار کر کہا: اے اللہ کے انصار! یہ ہے کفر کا سرغنہ امیّہ بن خلف، اگر یہ نجات پاگیا تو میں نجات نہیں پاؤں گا، پھر بہت سے فوجیوں نے مجھے گھیر لیا، یہاں تک کہ انہوں نے میرے گرد گھیرے کو تنگ کردیا، اور میں اسے بچا رہا تھا، پھر ایک آدمی نے اس کے بیٹے پر ضرب لگائی اور وہ گرگیا، اور امیہ نے ایسی چیخ ماری جیسی میں نے کبھی نہیں سنی تھی۔ میں نے اس سے کہا: جلد اپنی جان بچاؤ، (حالانکہ اب وہ کہاں بچ سکتا تھا) اللہ کی قسم! میں آج تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتا۔ پھرمجاہدین نے ان دونوں کو اپنی تلواروں کی اَنی پر لے لیا، یہاں تک کہ ان دونوں سے فارغ ہوگئے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: اللہ رحم کرے بلال پر، میری زرہیں بھی گئیں، اور میرے دونوں قیدیوں کو مروا کر مجھے پریشان کردیا۔ [1] قیدیوں کے بارے میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا موقف: جب مسلمان کچھ دشمنوں کو قتل اور کچھ کو قید کر رہے تھے اُس وقت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کے دروازے پر اپنی تلوار گردن سے لٹکائے کچھ انصار کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کررہے تھے، اس ڈر سے کہ کہیں دشمن ان پر حملہ نہ کردے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھ کر ان سے پوچھا: اے سعد! شایدتم اسے اچھا نہیں سمجھ رہے ہو، جو ابھی مجاہدین کررہے ہیں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ ! یہ تو اہلِ شرک کے خلاف پہلی جنگ ہے، اس میں تو ان کی بڑی تعداد کو قتل کرنا میرے نزدیک ان کا استقبال کرنے سے زیادہ بہتر ہے ۔ [2] کچھ لوگوں کا مکہ سے مشرکین کے ساتھ مجبوراً نکلنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن اپنے صحابہ سے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ بنی ہاشم اور بعض دیگر خاندانوں کے کچھ لوگ نکلنے پر مجبور کیے گئے ہیں، وہ ہم سے جنگ کرنا نہیں چاہتے تھے، اگربنی ہاشم کا کوئی آدمی تمہیں ملے تو اسے قتل نہ کیا جائے، اور ابو البختری بن ہشام اگر کسی کو مل جائے تو اسے قتل نہ کرے،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس مل جائیں تو انہیں قتل نہ کیا جائے، وہ یہاں زبردستی لائے گئے ہیں، ابو حذیفہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا ہم اپنے باپوں، بیٹوں، بھائیوں اور اہلِ خاندان کو قتل کریں اور عباس کو چھوڑ دیں، اللہ کی قسم! اگر وہ مجھے مل گیا تو میں اسے اپنی تلوار کی اَنی میں پِرو لوں گا، جب یہ بات
Flag Counter