Maktaba Wahhabi

623 - 704
جاؤ اور میرے اور اپنے بال بچوں کی نگرانی کرو۔ [1] چنانچہ علی رضی اللہ عنہ مدینہ واپس چلے آئے، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر روانہ ہوگئے۔ راستہ میں جب مقام حِجر سے گزرے تو اپنا کپڑا اپنے چہرہ پر ڈال لیا، اور لوگوں سے تیز چلنے کو کہا اور فرمایا: تم لوگ ایسے لوگوں کی بستی سے گزر رہے ہو جنہوں نے ظلم کیا تھا تم اُن کے گھروں میں روتے ہوئے داخل ہو، اس خوف سے کہ کہیں تم پر بھی وہ عذاب نہ آجائے جوقوم صالح پر آیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے آگے بڑھ گئے، اور کچھ لوگ ایک ایک کرکے پیچھے رہنے لگے۔ اور جب صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتے کہ فلاں آدمی پیچھے رہ گیا، تو آپ فرماتے: اُسے چھوڑ دو، اگر اُس میں خیر ہوگی تو اللہ تعالیٰ اُسے تمہارے پاس پہنچا دے گا، ورنہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے وجود سے تم لوگوں کو راحت دے دی ہے۔ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی آمد: تبوک کے لیے نکلنے میں جن لوگوں نے دیر کی، اُن میں ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ اپنا قصہ خود بیان کرتے ہیں کہ مجھے غزوه تبوک کے لیے نکلنے میں اونٹنی کے سبب دیر ہوگئی۔ وہ نہایت لاغر اور سوکھی ساکھی تھی۔ میں نے سوچا کہ اسے چند دن اچھی طرح کھلا لیتا ہوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملوں گا۔ چنانچہ اسے چند دن چارہ کھلانے کے بعد نکلا، اور جب مقام ذی المروہ پر پہنچا تو اونٹنی تھک کر بیٹھ گئی۔ میں نے ایک دن انتظار کیا لیکن اُس میں کوئی قوت نہیں دیکھی، تو میں نے اپنا سامان اپنی پیٹھ پر لاد لیا اور شدید گرمی کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملنے کے لیے پیدل چل پڑا۔ مدینہ کی طرف سے دیگر لوگوں کا آنا بھی بند ہوگیا تھا، میں چلتا رہا یہاں تک کہ دوپہر کے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا، اُس وقت مجھے شدید پیاس لگی تھی، مجھ پر ایک آدمی کی نظر پڑی تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ! یا رسول اللہ! وہ دیکھئے، ایک آدمی آرہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اللہ کرے یہ ابوذر ہو۔ لوگوں نے جب غور سے دیکھا تو مجھے پہچان کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ ابو ذر ہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ ابو ذر پر رحم کرے، اکیلا چل رہا ہے، اکیلا مرے گا، اور اکیلا اٹھایا جائے گا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے جب اپنے پیچھے رہ جانے کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میرے عزیز ترین اہل میں سے تھے جو پیچھے رہ گئے تھے۔ اے ابو ذر! اللہ نے تمہارے ہر قدم کے بدلے تمہارا ایک گناہ معاف کر دیا ہے یہاں تک کہ تم میرے پاس پہنچ گئے ہو۔[2] ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ کی آمد: تبوک کے لیے نکلنے میں دیر کرنے والوں میں ابو خیثمہ عبداللہ بن خیثمہ سالمی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ یہ وہ صحابی ہیں جنہوں نے اپنے نفس سے جہاد کیا، زندگی کی خوشگوار خواہشات سے مغلوب نہیں ہوئے، اُن کی دو خوبصورت بیویاں دو خوبصورت اور
Flag Counter